آج صبح ہم ( محترم محمد عارف ڈار اور میں ) تعزیت کیلئے محترم عبد الرشید وانی صاحب کے گھر ابوبکر کالونی نائیک باغ گئے۔
چلتے چلتے عارف صاحب نے ایک مسئلہ کی طرف میری توجہ مبذول کرائی ( اس وقت میں قیم حلقہ تھا ) کہ فلاں شخص کے مسئلہ میں آپ لوگوں (مطلب حلقہ نظم) نے کیا پیش رفت کی میں نے مطمئن نہ کرنے والا جوب دیا۔ سچ تو یہی ہے کہ اس مسلئے کے سلسلے میں حلقہ نظم سے لاپرواہی ہوئی ہے ۔ لگ بگ ایک مہینے سے سائل کا مسئلہ زیر التوا تھا ، جبکہ دوسرے امدادی اداروں نے اسکی کچھ مدد کی تھی ۔ بہرحال میں عارف صاحب کی صرف سنتا رہا کیونکہ جواب دینے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں تھے اسلئے میں نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا۔
چلتے چلتے میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ ہمیں کسی بھی کام میں تغافل نہیں کرنا چاہیے خاص کر جب وہ کام خدمت خلق سے وابستہ ہو۔ خدمت خلق ہی ایک ایسا بہترین ذریعہ ہے جو ہمیں لوگوں کے قریب لاسکتا ہے اور اسی بہانے ان تک ہم اسلام کی دعوت پہنچا سکتے ہیں۔
میں اندر ہی اندر جب اپنے آپ سے احتساب کرنے لگا تو مجھے ایک گھٹن سی محسوس ہوئی اور ذمہ داریوں کا بوجھہ محسوس ہونے لگا. اور ایسا لگا کہی میں اس بوجھ تلے دب نہ جاؤ ۔ انسان فرار کا راستہ سوچتا ہے کہ آئندہ میں کسی بھی ذمہ داری کو نبھانے سے عذر پیش کرونگا ۔لیکن یہاں مجھے جارج واشنگٹن کا مشہور قول یاد آتا ہے کہ
ننانوے فیصد ناکامیاں ان لوگوں کے حصے میں
آتی ہے جنہیں عذر پیش کرنے کی عادت ہوتی
ہے۔
ذمہ داریوں کے تئیں ہمیں عذر پیش کرنے کے بجائے ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہے اور کسی جمود و تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہے مجھے یہاں یوسف القرضاوی کی ایک بات یاد آتی ہے۔
داعی جتنا متحرک ہوگا دوسروں کو بھی اسی
نسبت سے متحرک کر سکے گا ، جس نسبت سے
وہ اپنا خون جگر جلائے گا اسی کے بقدر اسے
اپنے اردگرد روشنی نظر آئے گی۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ مجموعی طور ہم سب ذمہ دار ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا ۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔
«أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
صحیح مسلم 4724
سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی ( لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار ) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی ( رعایت پر مامور ) ہے ، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے ، اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال میں راعی ہے ، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سن رکھو! تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔
شخصیت پر خرچ
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمْ یَکُنْ یُسْئَلُ شَیْئًا عَلٰی الْاِسْلَامِ إِلَّا أَعْطَاہُ، قَالَ: فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ فَأَمَرَ لَہُ بِشَائٍ کَثِیْرٍ بَیْنَ جَبَلَتَیْنِ مِنْ شَائِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ: فَرَجَعَ اِلٰی قَوْمِہِ فَقَالَ: یَاقَوْمِ! أَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِی عَطَائً مَا یَخْشَی الْفَاقَۃَ۔
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام پر جو چیز بھی مانگ لی جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دے دیتے تھے، ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بہت ساری بھیڑ بکریاں دینے کا حکم دیا، یہ زکوۃ کی بکریاں تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان والی گھاٹی ان سے بھر جاتی تھی۔ وہ بندہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور ان سے کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح کثرت سے دیتے ہیں کہ ان کو فاقے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔
(مسند احمد 111)
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شخصیت پر خرچ کیا اور بڑی مقدار میں خرچ کیا ، جبکہ مسجد نبوی اور صفہ سمیت عمارتوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ کفر سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے، دور حاضر کے مسلمان اس سنت نبوی کو ترک کر چکے ہیں ، بالخصوص مساجد و مدارس کے منتظمین اور فنڈ جمع کرنے والی دوسری تنظیمیں، ہر ایک کی فکر یہ ہے کہ اس کے ادارے اور مسجد کی عمارت شاندار ہونی چاہے، اس قسم کی ٹائلیں لگنی چاہئیں ، مرکزی دروازے پرکشش ہونے چاہے ، علی ہذا القیاس۔ لیکن اس محلے کے غریب اور فقیر لوگوں کو کسی کی معرفت تک نہ ہوگی اور ائمہ و خطباء و مدرسین کی کفالت کے وقت بخل اور شکوں کا بھوت رقص کرنے لگے گا اور صبر و برداشت کی تلقین شروع ہوجائے گی، اگر چہ یہ لوگ اپنے آپ کو خادمین اسلام سمجھتے ہیں لیکن ان کو خدمت اسلام کا شعور تک نہیں ہے۔
یہ 14 فروری 2020 کی بات ہے