Design a site like this with WordPress.com
Get started

اللہ کی مدد کب آئے گی؟؟

اللہ کی مدد کب آئے گی؟؟

اسلامی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی جب مسلمان عالم کا زوال شروع ہوا تو اس میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور بیسویں صدی کے آخر میں یہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور آج حال یہ ہے کہ امت مسلمہ ذلت و پستی اور انحطاط کی آخری حدوں کو پار کر گئی ہے۔ اور زبوں حالی و بے وقعتی اسکا مقدر بن چکی ہے ، دشمنان اسلام چہار جانب اس پر ٹوٹ پڑے ہیں اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں، امت حیران و پریشاں ، بے بسی و بے کسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اور ہماری حیثیت اس کیچوا جیسی ہوگئی جسے ہر کوئی اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے۔کہیں پرندے اسے اپنی غذا بناتے ہیں تو کہیں مچھلی پکڑنے والے مچھلی پکڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔حدیث پاک میں ہماری اس صورتحال کی نشاندھی ان الفاظوں میں کی گئی ہیں۔

يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا
فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمْ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوبِكُمْ الْوَهْنَ قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ۔ (السلسلۃ الصحیحہ 2664)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: قریب ہے کہ لوگ تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں،کسی نے کہا: کیا اس دن ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: نہیں،بلکہ تم اس دن زیادہ ہوگے، لیکن تم سمندرکے جھاگ کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا ڈرنکال لے گا، اور تمہارے دلوں میں وَهْنُ رکھ دے گا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ وَهْنُ کیاہے؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا؛ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
آج پوری دنیا میں مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔ باطل ہمارے ساتھ من مانی حرکتیں کرکے ہمارے نوجوانوں کو ابدی نیند سلا رہا ہے ، ہمارے مکانات مسماراور ہمارے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جارہا ہے ۔ ہماری معشیت کو ہر صورت تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اور یہ سب زیادتیاں پوری عالمی برادری کے سامنے کھلم کھلا کی جاتی ہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا جہاں تک کہ نام نہاد مسلمان مالک اور ان کے سربراہان بھی خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہماری ذہنوں میں یہ سوال بار بار آتا ہے آخر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کب آئے گی ۔ یہ سوال صرف ہمارے ہی ذہنوں میں نہیں آتے بلکہ پچھلے پیغمبروں کے اصحاب نے اپنے پیغمبروں سے اور صحابہ کرام نے بھی رسول سے اللہ کی مدد و نصرت کے حوالے سے سوال کیا۔ جس کی ایک مثال حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت ہے۔حضرت خباب بن ارت فرماتے ہیں:

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے تلے چادر پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ہم لوگ مشرکین سے انتہائی تکالیف اٹھا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے آپ دعا کیوں نہیں فرماتے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے۔ چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت اور پٹھوں سے گزار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا گیا اور یہ معاملہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا، کسی کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے اور یہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا، اس دین اسلام کو تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دن تمام و کمال تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک ( تنہا ) جائے گا اور ( راستے ) میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف تک نہ ہو گا۔ بی (بخاری 3852)

اللہ کی مدد کب آئے گی ؟؟ اگر ہم قرآن و حدیث کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس سوال کا جواب قرآن نے بار بار دیا ہے اور اسکے تقاضے بھی بیان کئے ہیں۔ مختصراً میں چند نقاط کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔جنکی نشاندیی قرآن پاک میں فرمائی گئی ہے :

1۔ اپنے حالات خود بدلنے کی کوشش کرنا۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ ۞
الرعد ۔ 11
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل لیتی۔
سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

اللہ ان بندوں کی نگرانی اپنے کارندوں کے ذریعے یوں کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ لوگ اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی کیا سعی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ترقی و پسماندگی میں ، عزت و ذلت میں ، بلندی اور زوال میں کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنی سوچ ، اپنے شعور ، اپنے اعمال اور اپنی سرگرمیوں کو بدلتے نہیں۔ چناچہ اللہ بھی لوگوں کی سوچ اور ان کے فکر و عمل کے مطابق لوگوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اگرچہ اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کریں گے اور یہ یہ نہ کریں گے ۔ عملی نتائج لوگوں کے فکرو عمل کے مطابق ہی نکلتے ہیں۔ ہاں یہ نتائج عملاً اس دور میں پیدا ہوئے جو لوگوں کی زندگی کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر بہت ہی بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت کا تقاضا تھا اور اسی کے مطابق سنت الٰہیہ جاری وساری ہے کہ لوگوں کے حالات لوگوں کے بدلنے پر موقوف ہوں گے۔ سنت الٰہیہ ان کے طرز عمل اور ان کی طرز فکر پر مرتب ہوگی۔ یہ ایک صریح نص ہے ، لہٰذا اس میں کسی تاویل اور تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سنت الٰہیہ کے تعین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت ہی مکرم بنادیا ہے کہ خود انسان کے عمل سے سنت الٰہیہ بنتی ہے۔
اس سنت الٰہیہ کے تعین کے بعد سیاق کلام بتا دیتا ہے کہ اللہ کسی قوم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سنت کیا ہوتی ہے۔ وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ جب لوگ اپنے اندر بری تبدیلی لاتے ہیں تو پھر سنت الٰہیہ بھی ان کو برے دن دکھاتی ہے ( فی ظلال قرآن)

2۔ اللہ کے دین کی مدد کرنا۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَـنۡصُرُوا اللّٰهَ يَنۡصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ اَقۡدَامَكُمۡ ۞
(محمد _ 7)

ترجمہ:
اے لوگو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً جہاد میں ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دے گا۔ بندہ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کمر بستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ ( تیسر القرآن )
ڈاکٹر اسرار احمد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے راہنمائی بھی ہے اور خوشخبری بھی کہ اگر تم اللہ کی اطاعت میں مخلص رہو گے ‘ اس کے دین کے جھنڈے کو تھامے رکھوگے اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ رہو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے ہر جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوگا اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔

3۔ صبر واستقامت

اِنۡ تَمۡسَسۡكُمۡ حَسَنَةٌ تَسُؤۡهُمۡ وَاِنۡ تُصِبۡكُمۡ سَيِّئَةٌ يَّفۡرَحُوۡا بِهَا ‌ۚ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا لَا يَضُرُّكُمۡ كَيۡدُهُمۡ شَيۡــئًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ 
(آل عمران – 120)

(اے مسلمانو ! ) اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچ جائے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے وہ خوش ہوتے ہیں لیکن اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ کی روش اختیار کیے رہو تو ان کی یہ ساری چالیں تمہیں کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچا سکیں گی جو کچھ یہ کر رہے ہیں یقیناً اللہ تعالیٰ اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے

دشمنوں کی اس معاندانہ چال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہیں دو طاقتوں سے کام لینا ہو گا۔ وہ دو طاقتیں صبر اور تقویٰ ہیں۔ صبر کی طاقت سے اس وقت کام لینا ہو گا جب جہاد کا وقت آتا ہے۔ اور جب دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا وقت آئے، اپنے رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنے کا وقت آئے تو تقویٰ یعنی اپنے بچاؤ کے ذریعے، اللہ کی نافرمانی، رسولؐ کی نافرمانی اور تفرقہ بازی سے بچنے کے ساتھ ان کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔
لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ: ان دو عظیم طاقتوں کے استعمال کی صورت میں ان کی سازش اور عناد تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔
دشمن کی فریب کاریوں کو سمجھ کر مناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ صبر و تقویٰ کی راہ پر عمل ہو تو کوئی فریب کاری کارگر نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن دشمن کی سیاہ کاریوں کو بیان کرتا ہے۔( الکوثر فی تفسیرِ قرآن)
لہذا ضروری ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو خدائی نصرت کا حقدار بنائیں، اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور ہمارا جو رویہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے ، اسے چھوڑ کر وہ رویہ اپنائیں جس سے وہ راضی اورخوش ہو۔

قرآنی بشارتیں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَلَـقَدۡ كَتَبۡنَا فِى الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّكۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصّٰلِحُوۡنَ ۞
انبیاء ۔ 105

اور ہم نے لکھ دیا تھا زبور میں نصیحت کے بعد کہ اس زمین کے وارث ہوں گے ہمارے نیک بندے.

الفاظ کے مفہوم کے مطابق اس وراثت کی امکانی صورت یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اللہ کا دین پوری دنیا پر غالب آجائے گا ‘ اللہ کے نیک بندوں کی حکومت تمام روئے زمین پر قائم ہوجائے گی اور یوں وہ پوری زمین کے مالک یا وارث بن جائیں گے۔ (بیان القرآن)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں زبور کا وہ پورا باب نقل کیا ہے جس میں مومنوں کیلئے بشارتیں ہیں۔

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ ۞
المجادلہ۔ 21
ترجمہ:
اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ بیشک میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بیشک اللہ قوی و عزیز ہے۔

وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ‏ ۞
الصافات۔ 173
اور ہمارا ہی لشکر غالب رہنے والا بنے گا۔
اسکے علاوہ آپ قرآنی بشارتوں کے حوالے سے مندرجہ ذیل آیتوں کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔
1۔ سورہ توبہ ۔ 32-33
2۔ سورہ الصف۔ 8
3۔ النور۔ 55
4۔ فتح ۔ 28
5۔ الروم ۔ 47
6۔ یونس ۔ 106
7۔ الحج۔ 38
8۔ انفال۔ 19
اللہ تعالٰی نے جہاں مومنوں سے نصرت کا وعدہ فرمایا وہی کافروں کی چالوں کو ناکام بنانے کا بھی وعدہ فرمایا۔

وَيَمۡكُرُوۡنَ وَيَمۡكُرُ اللّٰهُ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمٰكِرِيۡنَ ۞ انفال ۔ 30
اور وہ اپنے منصوبے بنا رہے تھے اور اللہ اپنا منصوبہ بنا رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے۔

سورہ طارق۔15تا17، سورہ انفال 17تا 19 کا بھی مطالعہ کیا جائے۔

وَكَانَ وَعۡدُ رَبِّىۡ حَقًّا ؕ‏ ۞
کہف۔ 98
اور میرے ربّ کا وعدہ برحق ہے۔“

اللہ تعالیٰ کے وعدے مشروط ہیں جنکا ذکر اس مضمون میں بھی کیا گیا اور جسکی وضاحت قرآن و حدیث میں مفصل بیان کی گئی ہیں۔

عنقریب ہم غلبہ اسلام کا بچشم مشاہدہ کرینگے ان شاءاللہ ہم اپنی آنکھوں سے اسلام کے نظام رحمت سے فیض حاصل کرینگے اور اسلام پوری دنیا میں غالب ہوکر رہے گا جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ:لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیْلٍ۔ (مسند أحمد: 106)
سیدنا مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: روئے زمین پر اینٹوں والا گھر بچے گا نہ خیمے والا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دیں گے، یہ عزت والے کی عزت کے ساتھ ہو گا یا ذلت والے کی ذلت کے ساتھ ہو گا۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام بشارتوں ( جن کا ذکر قرآن وحدیث میں آیا ہے ) کے تقاضے پورا کریں اور مل جل کر دین اسلام کو غالب کرنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار پر زیادہ سے زیادہ غور وفکر کریں کہ کس طرح انہونے خدائی نصرت و حمایت کے تقاضے پورے کرنے میں کامیابی حاصل کی تاکہ ہم انکے نقش قدم پر چل سکیں اور انکی مانند بننے کی کوشش کریں ۔
والسلام۔
اعجاز جعفر

اللہ کی مدد کب آئے گی؟ اعجاز جعفر

اس مضمون کو daleel pk جو کہ پاکستان کی مشہور ویب سائٹ ہے نے بھی شائع کیا تھا۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: