اعجاز جعفر
کرونا وائرس کی وجہ سے کچھ دنوں سے ہم گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ہمیں مطالعہ کتب کے ساتھ ساتھ بچوں کے شور وگل اور انکی لڑائی جھگڑے بھی دیکھنے کو ملی۔ مگر ایک خاص بات جو میں نے دیکھی کی بچے اگر لڑائی جھگڑے کرتے ہیں تو جلدی صلح بھی کرتے ہیں اور پھر آپس میں گل مل جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
مگر جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو معمولی باتوں پر سالوں سال آپس میں باتیں نہیں کرتے ، بہن بھائی سے روٹھی ہوتی ہے بھائی بہن سے ، بھائی بھائی سے ۔
بچپن میں ہمارا دل صاف ہوتا ہے مگر بڑے ہوکر ہمارے سینوں میں بغض، حسد، کینہ، نفرت، آپسی رنجش وغیرہ وغیرہ گھر کر لیتا ہے اور جس کے نتیجے میں اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔ رشتوں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اسلام نے رشتوں کی اہمیت پر زور دیا اور انکو نبھانے کی تلقین کی اور رشتہ کاٹنے والوں کو ناپسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ يَنۡقُضُوۡنَ عَهۡدَ اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِيۡثَاقِهٖ وَيَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنۡ يُّوۡصَلَ وَيُفۡسِدُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِۙ اُولٰۤئِكَ لَهُمُ اللَّعۡنَةُ وَلَهُمۡ سُوۡۤءُ الدَّارِ ۞
ترجمہ:
رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانا ہے
(سورہ الرعد :25)
اسلام نے اپنے رشتہ داروں سے کبھی بھی قطع تعلق کا حکم نہیں دیا ہے ۔ ہمارے رشتے دار ایک جسم کے مختلف اعضاء کی حیثیت سے ہیں ۔ اگر یہ الگ الگ ہوگئے تو جسم باقی نہیں بچے گا ٹکرا ٹکرا ہوجائے گا۔
اسلام نے ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیایعنی رشتہ داروں سے رشتہ قائم کئے رکھیں ۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ومن كان يؤمن بًالله واليوم الآخر فليصل رحمه (صحيح البخاري:6138)
ترجمہ: جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔
جو لوگ صلہ رحمی نہیں کرتے ، رشتہ داریاں توڑتے ہیں انہیں ڈرایاگیا، سزائیں سنائی گئیں تاکہ دل میں خوف پیدا ہواور قطع تعلق سے رک جائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم ( رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی ) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔
(بخاری 5989)
بشر ہونے کے ناطے انسان جذبات میں آسکتا ہے ، غصہ کے عالم میں کسی سے رشتہ توڑ سکتا ہے ۔ اگر ایسا کبھی ہوجائے تو ایک مومن کو دوسرے مومن سے خواہ رشتہ دار ہوں یا عام مسلمان تین دن سے زیادہ قطع کلام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
رسول نے فرمایا
وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ»
کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق ترک کیے رکھے ۔
(مسلم :6526)
اگر دوسرے طرف آپکے رشتہ دار آپ سے بے رخی اختیار کرتے ہیں آپ سے رشتے کاٹتے ہیں آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو صبر سے کام لیجئے ۔ اور اللّٰہ تعالیٰ سے ان کے معاملے میں دعا کرتے رہے۔
آخری نصیحت
رسول نے فرمایا
وأن أصل من قطعني
جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔
ہمیں بچوں کی طرح زندگی گزارنی چاہے ۔ جو لڑتے ہیں ،جھگڑتے ہیں مگر جلد ہی صلح کرتے ہیں اور آپس میں پھر ایسے گل مل جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔
والسلام