Design a site like this with WordPress.com
Get started

فتنہ دجال اور ہم

عجاز جعفر

مصنف نے اس کتاب کا آغاز اس بات سے کیا کہ سورہ کہف کا گہرا تعلق فتنہ دجال سے ہے ۔ اور اسکے بعد دجال کی تین صفات بیان کئے کہ

1۔ دجال خدائی دعویٰ کریگا۔
2۔ دجال کو بے پناہ طاقت حاصل ہوگی۔
3۔ دجال کا اثر بہت حیرت انگیز طور پر نفوز کریگا۔
فتنہ دجال اتنا سخت ہوگا کہ ہر نبی نے اپنی اپنی امت کو فتنہ دجال سے آگاہ کیا ہے اور رسول ص نے بھی امت کو فتنہ دجال سے آگاہ کیا اور آپ ص خود اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
“واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال”
اسکے بعد مصنف نے دجال کے حوالے سے دو باتوں کا ذکر کیا۔
دجال کی شخصیت
دجال کے فتنے
میرے خیال میں دجال کے فتنے کی خصوصیات ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں،آج بھی انسان خود اپنا خدا بنا ہوا ہے۔ اپنے نفس کی پیروی، رسم ورواج کی پیروی، خدا کے باغی بندوں کی پیروی، اپنے مفادوں کی پیروی وغیرہ وغیرہ۔

مصنف نے سورہ کہف کی آیت نمبر 27 تا 29 کی روشنی میں تین اصول بیاں کئے کہ جس نے ان تین اصولوں کو مضبوطی سے تھاما وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔
1۔ کتاب اللہ
2 ۔مومن بندوں کے ساتھ اخوت و صحبت کا تعلق
3۔ حق کی دعوت
اسکے بعد مصنف نے ان تین اصولوں کی مفصل انداز میں وضاحت کرتے ہوئے کتاب اللہ سے تعلق کے ضمن میں کہا کہ

” جس طرح بچہ ماں کی گود میں جا کر سر ڈال دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب وہ ہر خطرے سے محفوظ ہے اسی طرح اگر آدمی اپنی شخصیت، اپنے دل، اور اپنی روح کو قرآن کی آغوش میں لاکر ڈال دے تو پھر وہ ان سب دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے جو چاروں طرف سے اس کے ایمان اور دل پر حملہ آور ہورہےہیں” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَاِنَّهٗ لَـكِتٰبٌ عَزِيۡزٌۙ‏ ۞
لَّا يَاۡتِيۡهِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهٖ‌ؕ تَنۡزِيۡلٌ مِّنۡ حَكِيۡمٍ حَمِيۡدٍ ۞
( سورہ ۔ فصلت 41 تا 42)

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے
باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

مومن بندوں سے اخوت و صحبت کا تعلق کے ضمن میں فرماتے ہیں۔

” اس دور میں جب کہ انسان اپنی سرکشی ، خود سری اور قوت کے باعث اپنی طاقت ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر نازاں ہے،ایسے میں ہدایت دی جارہی ہے کہ ان لوگوں کو تلاش کر کے ، انکے ساتھ رشتہ قائم کرکے ایک سوسائٹی بناؤ جو اپنے رب کو پکارنے والی ہو ، اس کی رضا و خوشنودی پر نگاہ جمائے رکھنے والی ہو اور صبر کرنے والی ہو۔
جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بنالیں انکے اندر یہ تین خصلتیں پیدا ہوتی ہیں۔
1۔ ان کا دل مردہ ہوجاتا ہے۔
2۔ وہ نفس کی پیروی کرتے ہیں۔
3۔ ہر کا میں حد اعتدال سے گزر جاتے ہیں۔
آخر میں مصنف نے دعوت الی اللہ کے ضمن میں فرمایا کہ حق کی دعوت دی جائے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَقُلِ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ۖ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡيُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡيَكۡفُرۡ ‌۔ (سورہ الکہف ۔ 29)
صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ۔
آج کے اس اس پرفتن دور میں اگر ہمارا ایمان و عقیدہ محفوظ رہ سکتا ہے تو ان تین اصولوں کو اپنایا جائے۔
والسلام۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: