نوٹ۔ یہ تبصرہ 25جون 2018 کو لکھا گیا تھا۔
آج سویرے اس کتاب پر نظر پڑی اور دس بیس منٹ میں اسکا مطالعہ بھی کیا۔ بچوں کیلئے مائل خیر آبادی کی ایک بہترین کوشش ہے ۔ اس کتاب میں ایک شعر کے ذریعے تاریخ اسلام کے اس دور کی نشاندھی کی گئی جب مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کا خوف نابود ہوچکا تھا۔ اور اتحاد کے بجائے افتراق و انتشار کے شکار ہوگئے تھے وہ آپس میں فقہی بحثوں میں اس طرح الجھے ہوئے تھے کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں ہی گریباں چاک کرنے پر تلے ہوئے تھا نتیجہ مسلمانوں کی بربادی اور ظالم حکمرآن کا ان پر مسلط ہونا۔ ہمارے دلوں میں جب خوف خدا ختم اور دنیا کی محبت غالب آجائے تو حدیث پاک کے مطابق ہم پر اقوام غیر مسلط ہونگے۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا
فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمْ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوبِكُمْ الْوَهْنَ قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ. ( السلسلۃ الصحیحہ۔ 2664)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ لوگ تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں،کسی نے کہا: کیا اس دن ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،بلکہ تم اس دن زیادہ ہوگے، لیکن تم سمندرکے جھاگ کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا ڈرنکال لے گا، اور تمہارے دلوں میں وَهْنُرکھ دے گا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ وَهْنُکیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
کہتے ہیں اسلامی تاریخ میں تاتاریوں سے بڑا فتنہ نہیں دیکھا گیا۔ یہ دور تھا جب اسلامی ورثہ، اسلامی تہذیب، اسلامی نظریاتی اثاثے ہی نہیں، مذہب اسلام بھی خطرے میں تھا۔ بخارا، سمر قند، ہمدان، زنجان، نیشاپور، خوارزم اور سب سے بڑھ کر اسلام کا قلعہ کہلوانے والا بغداد بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے تاتاریوں نے چھین لیا۔ عیش و عشرت میں غرق حکمرانوں اور بے کار علمی بحثوں میں پڑے اسکالروں نے مسلمانوں کا رہا سہا رعب بھی ختم کردیا تھا ۔ تاتاری اتنے بہادر نہیں تھے جتنے مسلمانوں کی کمزوری نے انہیں دلیر کردیا تھا۔ تاتاریوں کی طاقت کا ایسا خوف سر پرسوار ہوا کہ اگر کوئی تاتاری کسی مسلمان کو یہ کہہ کر خنجر لینے جاتا کہ آکر تجھے ذبح کروں گا تو وہ مسلمان وہیں سہما پڑا رہتا۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک تاتاری نے 100مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کسی نے مزاحمت تک نہیں کی۔ یہاں تک کہ ایک فقرہ ضرب المثل بنتا چلا گیا کہ تاتاریو ں کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کے خون ہی سے ہولی نہیں کھیلی بلکہ مساجد کی بھی بے حرمتی کی، وہاں شراب انڈیلی گئی، اذان بند ، صلیب بلند کرائی۔ صرف بغداد میں ایک ماہ تک 18لاکھ مسلمان تہہ تیغ کیے گئے۔ وہی بچا جو چھپا رہا۔ تاتاریوں کا رحم بھی ظلم جیسا تھا۔ چنگیز خان سے کسی نے پوچھا: تونے کبھی کسی کی مدد بھی کی۔ جواب آیا: ہاں۔
ایک بار ایک بچہ سمندر میں ڈوب رہا تھا اور اس کی اماں نے مدد کی درخواست کی تو میں نے نیزے کی انی ّ میں بچہ پرو کر اس کے حوالے کردیا تھا۔
یہ وہ صورتحال تھی مسلمانوں کے ’’بڑوں‘‘ کو بھی اس سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔ سب بے چین تھے مگر کچھ کر نہیں کرسکتے تھے۔ عیسائی منتظر تھے کہ کب دین اسلام کی اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دے کر گرادیا جائے لیکن یکایک کایا پلٹ گئی۔ اللہ کے ایک ولی کے منہ سے نکلے ایک جملے ’’اگر دین اسلام ہمارے پاس نہ ہوتا تو ہم کتے سے بھی بدتر تھے‘‘ نے سلطان تغلق تیمور کے دل کو بدلا اور پھر رفتہ رفتہ تاتاری قوم میں اسلام داخل ہوگیا اور وہ قوم جو اسلام کے لیے خطرے کا سبب بن رہی تھی وہ اسلام کی محافظ بن گئی۔ تبھی مشرق کے شاعر کا قلم پکارتا ہے:
ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بات دراصل یہ ہے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور وہ ہر صورت اس کی حفاظت کرے گا چاہے وہ کسی بھی قوم کے ذریعے سے ہو۔ جب مسلمان عیش میں یاد خدا اور طیش میں خوف خدا بھلا بیٹھیں تو اللہ کسی اور قوم کو ہدایت دے دیتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ بھٹکے ہوئے کہلانے والے لوگ اوروں کو راہ دکھانے لگتے اور قاتل مسیحا بن جاتے ہیں۔