نوٹ۔ یہ مضمون 13 جولائی 2019 کو لکھا گیا تھا۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج میں تیماداری کے سلسلے میں بچہ اسپتال سونہ وار گیا جہاں میں نے مندرجہ بالا بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا ۔۔
Don’t give bribe to any staffer in tha hospital.
If anyone insists for it,
Contact medical superintendent
ایسے ہی بورڈ میں نے ہر اسپتال میں دیکھے ہیں۔مگر جب عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ بورڈ صرف دیواروں تک ہی محدود ہے ۔
اگرچہ سرکار تو دعویٰ کرتی ہے گورنمنٹ اسپتالوں میں مفت علاج فراہم کیا جاتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح اسپتالوں میں عوام کو دو دو ہاتھ لوٹا جاتا ہے۔
سرینگر کے زنانہ استیال ( ایل ڈی ) کی ہی بات کرے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو جب ایک باپ سے پیسہ نہیں لیا جاتا ہے اسکو بچہ نہیں دیا جاتا ہے ۔
اسکے بعد بچہ کو جب بچہ وارڈ میں داخل کیا جاتا تو اندر آنے کیلے بھی پیسوں کا تقاضا کیا جاتا ہے اور جب بچہ وارڈ سے بچہ کو فارغ کیا جاتا ہے اس وقت بھی گیٹ پر مامور پیسوں کا تقاضا کرتاہے۔۔۔۔
آگے کہانی اور بھی ہے۔۔۔۔
جب ماں کو آپریشن کے بعد recovery ward میں شفٹ کیا جاتا ہے تو جو لوگ اس کو وارڈ تک لاتے ہیں وہ بھی پیسوں کو تقاضا کرتے ہیں اور اسکے بعد وارڈ کا گیٹ کیپر بھی اور وارڈ کے اندر سفید وردی والے بھی۔۔۔۔۔۔
جو لوگ بیڈ کا شیٹ تبدیل کرتے ہیں وہ بھی پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں اور جو وہاں صفائی کا انجام دیتے ہیں وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوکر خیر داریں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
کہانی اور بھی ہے ۔۔۔۔
جب ماں کو وارڈ میں داخل کرتے ہیں وہاں یہی کہانی دہرائی جاتی ہے گیٹ کیپر سے لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں ۔۔۔
دیواروں پر نصیحت لٹکانے سے بہتر ہے اس پر عمل کیا جائے۔
اگر گورنمنٹ اسپتالوں میں ظلم و ستم بند نہ کیا گیا تو بیچارے غریب عوام جائے تو جائے کہاں۔
رشوت خوری معاشرے کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے آپ جس ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں آپ کا کام تبھی ہو گا جب آپ سے تحفے تحائف اور انعام کے نام پہ رشوت نہ لے لی جاۓ ورنہ آپ کا کام پڑا رہے گا اور کسی صورت بھی آپ کی فائل وغیرہ آگے نہیں جاۓ گی.
رشوت انسانی معاشرے کے لیے خطرناک اور مہلک مرض ہے. جس معاشرے میں رشوت عام ہو جاۓ اس معاشرے میں حق و سچ کا خون ہو جاتا ہے اور باطل ہمیشہ رشوت کی آڑ میں بدمعاشی کرتے ہوۓ دندناتا پھرتا ہے جس کی وجہ سے انصاف سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔۔
اسپتال انتظامیہ ودیگر محکموں کے انتظامیہ کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہے۔