اعجاز جعفر
پہلی قسط
قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا۔
وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ ۞ (الذاریات۔ 56)
میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
انبیاء کرام علیہم السلام جس غرض کیلئے دنیا میں بھیجے گئے وہ اسکے سوا کچھ نہ تھا کہ انسان خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔
اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ (نحل ۔36)
اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔
پس ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ عبادت سے مراد کیا ہے اور اسلام میں جو عبادات ہم پر فرض کی گئی ہے انکی اصل روح کیا ہے۔ اگر ان امور کو ہم نہ جانیں گے تو اس مقصد کو ہی پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے جس کیلئے ہم کو پیدا کیا گیا۔
اسلام میں عبادت کا مفہوم محض پوجا ہی کا نہیں ہے، بلکہ بندگی بھی ہے عبادت کو محض پوجا کے معنی میں لینا دراصل جاہلیت کا تصور ہے۔کچھ رسوم اور مراسم ادا کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ اپنی پوری زندگی خدا کے قانون اور اس کی ہدایت کے مطابق گزارنا ہی اصل بندگی ہے۔
اسلام میں عبادات کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی سے الگ ہوکر مجاہدات و عبادات کے ذریعہ اندرونی قوتوں کو نشونما دے، کشف و کرامت کی قوتیں اپنے اندر پیدا کریں۔ دنیا اور خاندان و معاشی کی ذمہ داریوں سے الگ ہوکر خدا سے لَو لگانا اور مراقبہ، نفس کشی وغیرہ کرنا بھی اصل عبادت نہیں کیونکہ اگر یہ خدا کے نزدیک کوئی محبوب ترین چیز ہوتی تو بنی اسرائیل کے اس شخص کو عذاب میں مبتلا نہ کرتے جو پلک جھپکنے کے برابر بھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سعد بن ہشام حاضر ہوئے، اور کہا: میں مجرد ( غیر شادی شدہ ) رہنے کے سلسلے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا: ایسا ہرگز نہ کرنا، کیا تم نے نہیں سنا ہے؟ اللہ عزوجل فرماتا ہے: «وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً ؕ ”ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا“ ( الرعد: ۳۸ ) تو ( اے سعد! ) تم «تبتل» ( اور رہبانیت ) اختیار نہ کرو۔
(سنن نسائی۔3218)
پس دنیا کو چھوڑ کر کونو اور گوشو میں جا بیٹھنا اور اللّٰہ اللہ کرنا عبادت نہیں بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے ۔ ذکر الٰہی یہ ہے جو چیز خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں پھنسو پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞ (جمعہ 10)
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا زکر کیا گیا کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔(سنن نسائی۔ 2382) رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نصیحت فرمائی کہ آپکی بیوی اور آپکی آنکھوں کا بھی آپ پر حق ہے اسلئے رات کو کچھ حصہ سویا بھی کرو۔ پس ہماری زندگی کا ایک ایک پل ایک ایک سانس خدا کی عبادت میں مشغول رہنی چاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞ (انعام 162)
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے
اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر مفہوم پیش کیا کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے ، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمرآن ہو یا کوئی ذمہ دار شخص تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرض زندگی کا ایک ایک لمحہ رب کی غلامی میں وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔نماز کی فرضیت
عَنْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ » (رواه احمد وابوداؤد)معارف الحدیث۔ حدیث نمبر: 478)
پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں جس نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور ٹھیک وقت پر ان کو پڑھا اور رکوع سجود بھی جیسے کرنے چاہئیں ویسے ہی کئے اور خشوع کی صفت کے ساتھ ان کو ادا کیا تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا پکا وعدہ ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (اور نماز کے بارہ میں اس نے کوتاہی کی) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے چاہے تو اس کو بخش دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
مطلب یہ ہے کہ جو صاحب ایمان بندہ اہتمام اور فکر کے ساتھ نماز اچھی طرح ادا کرے گا تو اولاً تو وہ خود ہی گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہو گا اور اگر شیطان یا نفس کے فریب سے کبھی اس سے گناہ سرزد ہوں گے تو نماز کی برکت سے اس کو توبہ و استغفار کی توفیق ملتی رہے گی ۔
قرآن پاک نے نماز کیلئے صلٰوۃ کا لفظ استعمال کیا ہے اور قرآن میں ننانوے جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔ لغت میں صلٰوۃ کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف رخ کرنا، بڑھنا اور قربت ہونا _
قرآن کی اصطلاح میں صلٰوۃ کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کی طرف متوجہ ہونا، بڑھنا اور قریب سے قریب تر ہونا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اِنَّنِىۡۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِىۡ ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكۡرِىۡ ۞ (طٰہٰ۔14)
میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر
یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہوجائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اس کو اس حقیقت سے بےفکر نہ کردیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ۞ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ۞( بقرہ آیت نمبر 2۔3)
ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے۔جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں۔
نماز کی اہمیت و فضیلت۔
نماز کی اہمیت و فضیلت اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی احکام نازل کئے وہ سب زمین پر نازل ہوئے مگر نماز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر معراج کے موقع پر تحفہ دیا گیا اور پانچ نمازوں کا اجر وثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ ، قَالُوا : لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ : فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا ۔
( بخاری۔528، مسلم۔ 1523، ترمذی۔2868، نسائی۔463، مسند احمد۔1017، معارف الحدیث۔ 479)
اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سےگناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
اس حدیث پاک کے زریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ نمازیں انسانوں کے گناہوں کو معاف کئے جانے کا ذریعہ بنتی ہیں اور اس بات کو ایک محسوس مثال سے سمجھایا گیا۔
رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز کے موضوع پر تقریر فرمائی اور کہا جو شخص اپنی نمازوں کی ٹھیک طور پسے دیکھ بھال کریگا تو وہ قیامت کے دن اس کے لئے روشنی اور دلیل بنیں گی اور باعث نجات ہوں گی۔اور جو اپنی نمازوں کی دیکھ بھال نہیں کریگا تو ایسی نماز اسکے لئے نہ روشنی بنے گی اور نہ دلیل اور نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
نماز کو ضائع کرنا گمراہی کی دلیل ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ ۖ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا ۞ (مریم۔ 59)
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔
نماز ہی ایک ایسا رابط ہے جو بندے کو خدا سے جوڑتا ہے اور خدا پرستی کی راہ پر گامزن کرتا ہے لیکن ناخلف لوگوں نے اپنی قوم کو ایسے خطوط پر ڈال دیا جس کے نتیجے میں یہ قوم اپنے دین کے ستون یعنی نماز جیسی عبادت سے دور ہوتی گئی۔ نماز سے دور ہونا کفر کی سرحدوں میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ . (مسلم۔247،سنن ابن ماجہ۔ 1078، معارف الحدیث۔ 474)
نماز دین اسلام کا ایسا شعار اور حقیقت ایمان سے اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی گویا کفر کی سرحدوں میں داخل ہوا۔
نماز کامیابی کی ضمانت
نماز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بار بار کیا ہے کیونکہ ایمان لانے کے بعد نماز پڑھنے سے ہی ہمیں اپنے ایمان کو ثابت کرنا ، ایمان اگر دعوٰی ہے اور نماز اسکا عملی ثبوت۔ نماز پڑھنے والے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞ الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞ (المومنون۔ آیت نمبر 1تا 2)
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہوں۔
خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہار عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑجائیں، نگاہ پست ہوجائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہوجائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہوجایا کرتے ہیں (تفہیم القرآن)
ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ وہ نماز میں ڈاڈھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے اس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” اگر اسکے دل میں خشوع وخضوع ہوتا تو اسکے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا۔
فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے ان چیزوں کا ذکر کیا گیا جن سے نمازوں میں خشوع وخضوع غائب ہو جاتا ہے۔مومن ہر حال میں اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَۘ ۞(المومنون۔9)
اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رض سے مروی ہے کہ انہونے اپنے تمام گورنروں کو لکھا کہ تمہارے سارے کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت میرے نزدیک نماز کی ہے، جو شخص اپنی نماز کی حفاظت کریگا اور اسکی دیکھ بھال کرتا رہے گا تو وہ اپنے پورے دین کی حفاظت کرے گا اور جو نماز کو ضائع کرے گا تو وہ ساری چیزوں کو بدرجہ اولیٰ ضائع کر دینے والا ثابت ہوگ۔(راہ عمل۔49)
اصل میں نماز ہی سے تمام نیکیاں نشو نما پاتی ہیں اور وہی اپنے حصار میں انکی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اگر نماز وجود میں نہ آئے تو دوسری نیکیاں بھی وجود میں نہ آسکتی اور اگر نماز ہدم کر دی جائے تو دین و اخلاق کا سارا چمن تاراج ہوجائے گا۔ اس لئے فرمایا گیا کہ جس نے نماز ضائع کی تو وہ باقی دین کو بھی بدرجہ اولی ضائع کردے گا۔
Nice work sir
Keep continue please
LikeLiked by 1 person
شکریہ محترم
جزاک اللہ خیرا کثیرا
LikeLike