اعجاز جعفر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔ انسان ہر وقت خدا کا بندہ ہے، اس لئے اسکی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا کی عبادت میں بسر ہونا چاہے، اسکے عقائد و افکار، اخلاق و کردار، تہذیب و تمدن، معاشرت و معیشت، صنعت و حرفت اور جملہ انفرادی و اجتماعی امور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونے چاہے اس کا نام عبادت ہے۔
نماز اسی ہمہ وقتی عبادت کیلئے تیار کرنے کا ذریعہ ہے۔ انسان دن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اسکے رب العالمین ہونے کا اقرار کرتا ہے اور اس عہد کو دہراتا ہے کہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں، وہ نماز کے آغاز میں ہی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ:
میں کسی غیر کی اطاعت نہیں کرونگا اور اپنی پوری زندگی کو تیرے احکام کے تابع کر دونگا،پھر انسان کبھی کھڑا ہوتا ہے کبھی رکوع کرتاہے کبھی سجدے میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ مشق کرتا ہے کہ جب اللہ تعالٰی کا کھڑا ہونے کا حکم آئے گا تو وہ کھڑا ہوجائے گا اور جب جھکنے کا حکم ہوگا تو جھک جائیگا۔
نماز میں اطاعت، مساوات، خدا کی راہ میں صف بستگی، نظم و ضبط اور اسکے ذکر کی جو تربیت حاصل کریگا، اسے خدا کہ ہمہ وقت بندگی اور اسکے احکام کی اطاعت میں استعمال کریگا۔ جب اسے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آنا پڑیگا تو وہ اسی جذبے کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہوجائیگا جس طرح نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور اگر ایسے وقت میں وہ گوشہ نشین ہوکر تسبیحات و مناجات میں مصروف رہا تو گویا اس نے نماز سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔ بقول علامہ اقبال
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
نماز بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی سکھاتی ہے کہ کون سا کام کب اور کیوں کرنا چاہے ۔ جو لوگ ترجیحات کو نہیں سمجھتے وہ دراصل دین کے اصل روح سے دور ہے۔
اگر نماز مسلمانوں کی فکر اور سوچ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی ، نمازی ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اپنے دل و نگاہ کو مسلمان نہیں کرتا اور انہیں پوشیدہ اصنام سے پاک نہیں کرتا تو ایسے نماز سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے جو مکمل خضوع و خشوع کے ادا کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔
نماز کے ذریعے انسان براہ راست اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے، اس سے عہد کرتا ہے کہ میرا واحد مالک اور معبود تو ہے، اس عہد کے ذریعے مومن کے دل میں کلمہ حق بلند کرنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے وہ غیر اللہ کی خدائی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا ہے اور غیر اللہ کا انکار کرکے اپنے خدا کی حاکمیت قائم کرنے کی جدو جہد کرتا ہے۔ جس طرح وہ نماز میں امام کی غلطی کو برداشت نہیں کرتا اسی طرح وہ ایسے تمام طریقے اور نظام حیات کو کیسے برداشت کریگا جو اس کے دین پر عمل کرنے کیلئے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے ۔ وہ ہر اس نظام کو بدلنے کی کوشش کریگا جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کے خلاف ہو ۔ اگر نماز کے ذریعے یہ جزبہ پیدا نہ ہو تو نماز رسم کے سوا کچھ نہیں ۔
نماز میں وقت کی پابندی
اسلامی عبادات کے نظام الاوقات میں ہر عبادت کیلئے ایک خاص وقت مقرر ہے ۔ حج سال میں ایک بار اور خاص مہینے ذالحجہ میں اور روزہ سال میں صرف رمضان میں فرض کئے گئے ہیں اسی طرح نماز کے لئے وقت کی پابندی بھی فرائض میں ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتۡ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ كِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ۞ (النساء 103)
نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔
اس آیت میں دو چیزیں فرض کی ایک نماز دوسرا وقت کی پابندی۔
بقول شیخ العالم
وقتچ نماز چھے تختس رندے
وقتچ نماز چھے بندہ گئیے
بے وقتچ نماز چھے مذاق تہ خندے
بے وقتچ نماز چھے شرمندگی
قضائے عمری کا مسئلہ
بہت سارے علماء قضاء نماز کے قائل ہیں ان کے نزدیک جس شخص کی جتنی بھی نمازیں فوت ہوئی ہو اس کو اسکے حساب سے ان کی قضا پڑھنی لازم ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا اگر کسی انسان کو یہ کہا جائے آپ کو بیس تیس سال کی نمازیں ادا کرنی ہوگی تو وہ دین سے ہی متنفر ہو جائے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دین میں سختی کے قائل نہ تھے وہ ہر معاملے میں آسان راستہ اختیار کرتے تھے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری کو نصیحت کی کہ
يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا
(بخاری 6124، 4341، 4342)
( لوگوں کے لیے ) آسانیاں پیدا کرنا، تنگی میں نہ ڈالنا، انہیں خوشخبری سنانا، دین سے نفرت نہ دلانا۔
اگر کسی صاحب کی سالوں کی نمازیں قضا ہوئی ہو تو وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ واستغفار کریں اور آئندہ نماز نہ چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسکی لغزشوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَاعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰهِ وَاَخۡلَصُوۡا دِيۡنَهُمۡ لِلّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ وَسَوۡفَ يُـؤۡتِ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞ ( نساء ۔ 146)
البتہ جو اُن میں سے تائب ہو جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کےلئے خالص کر دیں، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا
اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کردینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں، اپنی ساری دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو وہ اللہ کے آگے نذر کردے، کسی چیز کے ساتھ بھی دل کا ایسا لگاؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اسے قربان نہ کیا جاسکتا ہو۔
فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِؕ ( توبہ ۔ 11)
پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ۔
نماز نہ پڑھنے والوں کے متعلق علامہ ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں کہ ان کو نہ سلام کرنا چاہے اور نہ انکے سلام کا جواب دینا چاہے،اس سے اپنی بیٹی کی شادی بھی نہیں کرنی چاہیے۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيۡنَ عَمِلُوا السُّوۡۤءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ وَاَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
(نحل ۔ 119)
البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر برا عمل کیا اور پھر توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کر لی تو یقیناً توبہ و اصلاح کے بعد تیرا رب اُن کے لیے غفور اور رحیم ہے۔
یعنی جو لوگ اب تک غلطیوں اور جہالت میں مبتلا تھے توبہ کرنے کے بعد تمہارا رب ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔
دور نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں قضاء نماز کا کوئی تصور نہ تھا نماز نہ پڑھنے والا اور نماز پڑھنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرنے والا تو منافق کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں جب مسلمان تنزلی اور پستی کا شکار ہوئے تو انہوں نے دوسرے عبادات کے ساتھ ساتھ نمازوں میں بھی لاپرواہی برتنا شروع کیا اور نمازیں ضائع کرنے لگے۔ اسکے بعد جب فقہاء کے سامنے قضاء نماز کا مسئلہ آیا تو انہونے اسکی قضاء لازمی قرار دیا یعنی جتنی نمازیں فوت ہوئی اتنی نمازوں کی قضاء لازمی ہے مگر کسی بھی علما و فقہا نے اس بارے میں کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی۔ قرآن و حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کو توبہ کرنی چاہے اور اللّٰہ سے اپنے خطاؤں کی معافی مانگنی چاہے اور آئندہ نمازوں کی پابندی کرنی چاہے اور نوافل کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہے تاکہ قیامت کے دن نوافل کی برکات حاصل ہو۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ أَكْمَلَهَا كُتِبَتْ لَهُ نَافِلَةً، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَكْمَلَهَا قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ، فَأَكْمِلُوا بِهَا مَا ضَيَّعَ مِنْ فَرِيضَتِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ۔( سنن ابن ماجہ 1426_ 1425)
قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہو گی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہو گی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہو گا ۔
ایک اور حدیث پاک میں فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يُتِمَّها؛ زِيدَ عَلَيْهَا مِنْ سُبُحاتِه حتّى تتِمَّ.
( السلسلۃ الصحیحہ۔ 743_744)
جس شخص نے كوئی (فرض) نماز پڑھی اور اسے مكمل نہیں كیا تواس كے نوافل میں سے اسے پورا كیا جائے گا۔
ان احادیث پاک کی روشنی میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور دوسری بات جسکی نمازوں میں کمی ہوگی اس کمی کو نوافل سے پوری کی جائے گی۔ صحابہ کرام کا طریقہ بھی یہی تھا جب ان سے نمازوں میں کوئی لغزش ہوتی تھی تو وہ زیادہ سے زیادہ نوافل اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے۔
کجھوروں کا موسم تھا درختوں میں کھجوریں لدی ہوئی تھی ، خوشے بوجھ سے جھک گئے تھے ۔ ایک انصاری صحابی اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے اتفاق سے انکی نظریں کھجوروں کی طرف اٹھ گئی خیال اُدھر ہی لگ گیا اور یہ یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات ہوئی اس غفلت کی وجہ سے صحابی کو اتنا صدمہ ہوا کہ باغ ہی خلیفہ سوم کے ہاتھوں خیرات کیا۔
مولانا منظور نعمانی نے اپنی کتاب اصلاحی خطبات میں امیر معاویہ کا اور مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے بھی اپنی کتاب روشن ستارے میں بہت سارے ایسے واقعات قلمبند کئے۔
الغرض صحابہ کرام نے ان تمام رکاوٹوں کو دور کیا جو انکی نمازوں میں خلل ڈالتی تھی اور دوسری بات یہ جب انکی عبادت میں کوئی لغزش ہوتی تھی تو وہ اسکے بدلے زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے تھے۔
نماز کے وقت شور مچانا۔
نماز کے وقت مسجد کے اندر اور مسجد کے باہر بھی شور وگل سے پرہیز کرنا چاہے کیونکہ شورو شرابہ مچانا کفار کا کام ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِهٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَالۡغَوۡا فِيۡهِ لَعَلَّكُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ ۞
( فصلت۔ 26)
یہ منکرین حق کہتے ہیں “اِس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ”
مولانا مودودی رح اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے،وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کش انداز میں اس بےنظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا۔ اس لئے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کو نہ خود سنو، نہ کسی کو سننے دو ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی اسے سنانا شروع کریں، شور مچاؤ، تالی پیٹ دو ۔ آوازے کسو، اعتراضات کی بوچھاڑ کردو۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز اس کے مقابلے میں دب جائے۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے۔
بخاری شریف میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت یوں بیان ہوئی۔
لَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاق۔ (2125)
اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے۔
بحیثیت مسلمان ہمیں بازاروں میں شور وغل سے پرہیز ہی کرنا چاہے ، بہتر ہے بازاروں میں فضول ٹہرو مت اور خاص کر جب نماز کا وقت ہو تو ہمیں باہر اتنا شور نہ مچانا چاہے کہ مسجد میں نمازی خلل محسوس کریں ۔ دوسری بات اس مسجد میں خواتین بھی نمازیں پڑھتی ہے تو ہمارے اوپر دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ نماز کے بعد فوراً گھر جائے تاکہ عورتوں کو نکلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
(نوٹ ۔ دراصل مسجد میں اور مسجد کے باہر شور و غل کے بارے میں ایک بزرگ نے سوال کیا تھا جسکا جواب دینے کی میں نے کوشش کی۔)