بندے نے جب ندوہ سے ڈگری حاصل کی اور اپنے گھر لوٹا تو اس نے سوچا اب میرے پاس ڈگری بھی اور صلاحیت بھی، اب مجھے اسلام کی خدمت کرنا چاہے۔
جیسا کہ قرآن پاک کا فرمان ہے۔
وَمَا كَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِيَنۡفِرُوۡا كَآفَّةً ؕ فَلَوۡلَا نَفَرَ مِنۡ كُلِّ فِرۡقَةٍ مِّنۡهُمۡ طَآئِفَةٌ لِّيَـتَفَقَّهُوۡا فِى الدِّيۡنِ وَ لِيُنۡذِرُوۡا قَوۡمَهُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَيۡهِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَحۡذَرُوۡنَ ۞
(توبہ ۔ 122)
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔
بہرحال بندے کو محلے کی مسجد میں پانچ ہزار کے عوض پنجہ وقتہ امامت کرنے کا آفر آیا جس کو اس نے یہ سمجھ کر منظور کیا کہ اسلام کی خدمت کر سکوں۔
مگر پھر کیا ہوا ہر ایرا غیرا مولوی صاحب کو آکے کھری کھری سناتا ، اگر بچے شور کرتے تو بھی مولوی صاحب کو ہی مورد الزام ٹہراتے۔ مولوی صاحب کبھی ایک منٹ دیر سے آئے تو مقتدیوں کے تیور بگڑا ہوتا ہے۔
اگر کبھی مولوی صاحب نے خان ڈرس کے علاوہ کوئی اور کپڑا پہنا تو مولوی صاحب بے دین ہوگیا اور ایسا لگتا ہے جیسے مولوی صاحب نے شریعت پامال کی ہو۔
غرض مولوی صاحب نے تنگ آگر امامت سے استعفیٰ دے دیا اور پھر ایک دارالعلوم میں سات ہزار کے عوض بچوں کو اس نیت سے پڑھانے لگا کہ اسلام کی خدمت کر سکوں،
شاید مولوی صاحب کو یہ حدیث ذہن میں ہی تھا کہ
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَجِيء الْأَعْمَال فتجيء الصَّلَاة قتقول: يارب أَنَا الصَّلَاةُ. فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ. فَتَجِيءُ الصَّدَقَة فَتَقول: يارب أَنَا الصَّدَقَةُ. فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ ثُمَّ يَجِيء الصّيام فَيَقُول: يارب أَنَا الصِّيَامُ. فَيَقُولُ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ. ثُمَّ تَجِيءُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَلِكَ. يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ. ثُمَّ يَجِيءُ الْإِسْلَامُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَنْتَ السَّلَامُ وَأَنَا الْإِسْلَامُ. فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ بِكَ الْيَوْمَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَة من الحاسرين)
مشکٰوۃ المصابیح ۔ 5224
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اعمال (اللہ کے حضور سفارش کرنے کے لیے) آئیں گے ، نماز آئے گی ، اور عرض کرے گی ، رب جی ! میں نماز ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، صدقہ آئے گا ، وہ عرض کرے گا ، رب جی ! میں صدقہ ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر روزہ آئے گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں روزہ ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر اسی طرح اعمال آتے جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا جائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر اسلام آئے گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، آج میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا :’’ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔‘‘
لیکن پھر ہوا یوں کیا کہ کچھ دن بعد دارالعلوم کے مہتمم نے اسکو رسید بک دیا اور مسجدوں سے پیسے جمع کرنے کو کہا، مجبوری کی حالت میں مسجد مسجد جاکر پیسے جمع کرنے لگا ۔ مسجد میں لوگ کبھی باہر بیھٹنے کو کہتے اور کچھ لوگ دوسری باتیں سناتے ۔ بندے کا عزت نفس پامال ہوتا تھا مگر یہ سب کچھ محض اسلئے کرتا کہ دین اسلام کی خدمت کر سکوں۔ اب اگر کبھی پیسے کم جمع ہوئے تو مہتمم بھی اپنی ڈانٹ کا کوٹا پورا کرتا غرض ہر روز یہ بیچارہ مولوی صاحب خون کے گھونٹ پیتا مگر مجال کی کوئی اس کی بھی سنتا۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مولوی صاحب کو یونیورسٹی میں نوکری لگ گئی مگر اس شرط پر کہ آپ کو پنٹ قمیض پہن کر آنا ہے ۔ اب بندہ پنٹ قمیض پہن کر یونیورسٹی جاتا ہے اور بچوں کو آرام سے اسلامیات کا درس بھی دیتا ہے، پانچ وقت ک نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہے ۔ اسلام کی خدمت بھی تن من دھن سے کرتا ہے، اور بڑی بات یہ ہے کہ اب اس کو سب لوگ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
اعجاز جعفر