ہم بچپن سے بڑھاپے تک بہت سی خواہشات اور آرزوئیں خود سے رکھتے ہیں اور دوسروں سے بھی امید کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض خواہشیں پوری بھی ہو جاتیں ہیں اور کچھ ادھوری بھی رہ جاتی ہیں۔ پوری ہوجاتی ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں اور اگر آرزوئیں ادھوری رہ جائیں تو افسوس کرتے ہیں۔ ہماری دنیاوی خواہشات کا کوئی کنارہ نہیں۔ کوئی سرحد نہیں۔ انسان ایک کے بعد ایک آرزوئیں دل میں بسائے چلا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ کیا جو ہم خواہشات اپنے دل میں سجا رہے ہیں ان کا کوئی مستقل فائدہ بھی ہے یا بس ایک وقتی نفع؟ نہیں ہم میں سے کسی کے پاس یہ سب سوچنے کا وقت ہی کہاں ہیں۔ خواہشات کا سمندر ہے جو بس بہتا چلا جا رہا ہے۔ آرزوؤں کا سیلاب ہے جو انسان کو صبح شام دنیا کے جال میں پھنسائے رکھتا ہے۔ کاش یہ ہو جائے، کاش وہ ہو جائے۔ ہائے کاش وہ مل جائے، ہائے کاش میں یہ بن جاؤں وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب تو وہ خواہشات اور آرزوئیں تھیں جو ہم انسان زندہ ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ ہمارے لئے یہ ٹھیک بھی ہیں یا غلط؟
لیکن!!!!
کیا آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجیدہماری کچھ ایسی آرزوئیں ہمیں بتاتا ہے جو مرنے کے بعد ہم انسان کیا کریں گے؟لیکن ظاہر ہے یہ سب آرزوئیں پوری نہیں ہو پائیں گی کیونکہ ہم مر چکے ہوں گے۔ اور ہمیں دی گئی مہلت ختم ہو چکی ہو گی اور ہم صرف ’’ کاش‘‘ کرتے رہ جائیں گے۔
دیکھتے ہیں قرآن مجید نے ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے اور خواب غفلت سے جگانے کے لئے کیسی آرزوئیں ہمیں بتا رہا ہے:
يٰلَيۡتَنِىۡ لَمۡ اُوۡتَ كِتٰبِيَهۡۚ ۞ وَلَمۡ اَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡۚ ۞ يٰلَيۡتَهَا كَانَتِ الۡقَاضِيَةَ ۚ ۞
(الحاقہ25تا 27)
اے کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا ۔اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش میری وہی موت (جو دُنیا میں آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔
یعنی مجھے نہ بتایا جاتا کہ میں دنیا میں کیا کچھ کر کے آیا ہوں۔ دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے کبھی یہ نہ جانا تھا کہ حساب کیا بلا ہوتی ہے، مجھے کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ ایک دن مجھے اپنا حساب بھی دینا ہوگا اور میرا سب کیا کرایا میرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ ( تفہیم القرآن)
يٰلَيۡتَنِى اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِيۡلًا ۞
( الفرقان 26)
اے کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔
یعنی ہر وہ شخص جس نے رسول کی مخالفت کی فرمایا کہ ان لوگوں کو چاہئے کہ اس دن کا تصور کریں جس دن ہر وہ شخص جو آج اندھا بہرا بن کر رسول کی مخالفت کر رہا ہے اور اس طرح خود اپنی جان پر ظلم ڈھا رہا ہے نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے اللہ کے رسول کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرلی ہوتی اور اپن بدبختی سے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا جس نے مجھے خدا کی یاد دہانی سے جب کہ وہ میرے پاس آچکی تھی۔ برگشتہ کر کے گمراہی میں ڈالا !
(تدبر قرآن)
يٰوَيۡلَتٰى لَيۡتَنِىۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِيۡلًا ۞
(الفرقان 28)
کاش ! میں نے فلاں شخص کودوست نہ بنایا ہوتا۔
جب کافر مومنوں سے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھے گا وہی مومن جنہیں وہ حقیر مخلوق سمجھ کر ایذائیں پہنچایا کرتا تھا تو حسرت و ندامت سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل جائیں کہ کاش میں نے بھی اللہ کے رسول کا ساتھ دیا ہوتا تو یہ سخت وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ کاش میں نے کچھ اپنی بصرت سے کام لیا ہوتا اور محض دوسروں کا آلہ کار بن کر رسول کی مخالفت نہ کی ہوتی۔( تیسر القرآن)
يٰلَيۡتَـنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰهَ وَاَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا
(احزاب ۔ 66)
جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔
جہنمیوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہنمی سانس لینے کی غرض سے جہنم کی آگ سے منہ نکال کر آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے کاش ! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سرداروں اور بڑوں کی پیروی کی اور گمراہ ہوئے۔ اے ہمارے رب ہماری درخواست ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی پیشواؤں کو دوگنا عذاب کیجیے اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار کیجئے۔( فہم القرآن)
يٰلَيۡتَنِى اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِيۡلًا ۞
( الفرقان 26)
اے کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔
یعنی ہر وہ شخص جس نے رسول کی مخالفت کی فرمایا کہ ان لوگوں کو چاہئے کہ اس دن کا تصور کریں جس دن ہر وہ شخص جو آج اندھا بہرا بن کر رسول کی مخالفت کر رہا ہے اور اس طرح خود اپنی جان پر ظلم ڈھا رہا ہے نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے اللہ کے رسول کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرلی ہوتی اور اپن بدبختی سے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا جس نے مجھے خدا کی یاد دہانی سے جب کہ وہ میرے پاس آچکی تھی۔ برگشتہ کر کے گمراہی میں ڈالا !
(تدبر قرآن)
يٰوَيۡلَتٰى لَيۡتَنِىۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِيۡلًا ۞
(الفرقان 28)
کاش ! میں نے فلاں شخص کودوست نہ بنایا ہوتا۔
جب کافر مومنوں سے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھے گا وہی مومن جنہیں وہ حقیر مخلوق سمجھ کر ایذائیں پہنچایا کرتا تھا تو حسرت و ندامت سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل جائیں کہ کاش میں نے بھی اللہ کے رسول کا ساتھ دیا ہوتا تو یہ سخت وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ کاش میں نے کچھ اپنی بصرت سے کام لیا ہوتا اور محض دوسروں کا آلہ کار بن کر رسول کی مخالفت نہ کی ہوتی۔( تیسر القرآن)
يٰلَيۡتَـنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰهَ وَاَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا
(احزاب ۔ 66)
جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔
جہنمیوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہنمی سانس لینے کی غرض سے جہنم کی آگ سے منہ نکال کر آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے کاش ! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سرداروں اور بڑوں کی پیروی کی اور گمراہ ہوئے۔ اے ہمارے رب ہماری درخواست ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی پیشواؤں کو دوگنا عذاب کیجیے اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار کیجئے۔( فہم القرآن)
يٰلَيۡتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞ (انعام 27)
اے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں
کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں۔
(تفسیر ابن کثیر)
فَلَوۡ اَنَّ لَـنَا كَرَّةً فَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞ (الشعراء ۔ 102)
اے کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھرجانا ملتا تو ہم پکے سچے مومن بن جاتے۔
اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔ ( احسن البیان)
وَقَالُوۡا لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِىۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ ۞ ( الملک۔ 10)
اور وہ کہیں گے ”کاش ہم سُنتے اور سمجھتے تو آج اِس بھَڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے۔“
یعنی ہم نے طالب حق بن کر انبیاء کی بات کو توجہ سے سنا ہوتا، یا عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ فی الواقع وہ بات کیا ہے جو وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہاں سننے کو سمجھنے پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم کو توجہ سے سننا (یا اگر وہ لکھی شکل میں ہو تو طالب حق بن کر اسے پڑھنا) ہدایت پانے کے لیے شرط اول ہے۔ اس پر غور کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا مرتبہ اس کے بعد آتا ہے نبی کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل سے بطور خود کام لے کر انسان براہ راست حق تک نہیں پہنچ سکتا۔
يٰلَيۡتَنِىۡ لَمۡ اُشۡرِكۡ بِرَبی اَحَدًا۔
(الکہف ۔ 42)
اے کاش ! مَیں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔
اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت و افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
(احسن البیان)
يَقُوۡلُ يٰلَيۡتَنِىۡ قَدَّمۡتُ لِحَـيَاتِىۚ ۞
(الفجر۔ 24)
وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا !
وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا “۔ کچھ کمائی کرکے اس جہاں کے لئے جمع کی ہوتی ، حقیقی زندگی تو یہ ہے جسے زندگی کہا جاسکتا ہے۔ تیاریاں اور کمائی اور ذخیرہ تو اس زندگی کے لئے ضروری تھا ، اے کاش کہ میں نے کچھ کیا ہوتا ! یہ ہوگی حسرت ناک تمنا۔ اور وہاں انسان ان حسرتناک تمناﺅں کے سوا اور کر کیا سکے گا۔
( فی ظلال القرآن)
وَیَـقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا۔
( النباء ۔ 40)
”اور کافر کہے گا : کاش کہ میں مٹی ہوتا !“
کاش مجھے شرفِ انسانیت ملا ہی نہ ہوتا ! ”مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے !“ کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا ! ( بیان القرآن۔ اسرار احمد)
قرآن مجید میں انسانوں کو پوری تفصیل کے ساتھ بتادیا گیا ہے کہ اِس کائنات کا خالق کون ہے۔۔۔ اِس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔۔۔ اِس میں انسان کا مقام کیا ہے اور اِسے پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے اور اِس کے لیے دنیا کی زندگی میں کون سا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟۔۔۔ اور یہ سب کچھ قیاس، گمان یا وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید کے مضامین اور اس کی تعلیمات اتنی واضح ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہوسکتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب نے اپنے ایمان لانے والے انسانوں کی زندگی پر حیرت انگیز اثرات مرتب کیے جو صحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہوئے اور آج بھی جو لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہیں، ان کی ذہنیت، اخلاق اور سیرت میں بہترین تبدیلی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ کی ہدایت اور رحمت کے موجود ہوتے ہوئے، اور اِنسانی زندگی پر اِس کے مثبت اثرات کو دیکھنے کے باوجود جو شخص، اِس سے سبق نہ لے اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ سزا پاکر ہی مانے گا۔ جو شخص ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا، جب کہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرکے بہت سے مریض صحت مند ہوچکے ہیں، وہ موت کے منہ میں جاکر ہی مانے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی گزار رہا تھا وہ اس کو ہلاک کرنے والے تھے۔
مر کے گر چین نہ پایا تو کہاں جاؤ گے:
قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ اہلِ جہنم دوبارہ اِس دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے، اور کہیں گے کہ۔۔۔ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اُس وقت ہم نے نہ مانا تھا، اب حقیقت دیکھ لینے کے بعد ہم جان گئے ہیں، اس لیے اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرزِعمل وہ نہ ہوگا جو پہلے تھا۔ قرآن مجید یہ منظر ہمیں اس لیے دکھاتا ہے کہ ہم آج ہی اپنی اصلاح کرلیں، ورنہ حقیقت واضح ہونے کے بعد موقع نہیں دیا جائے گا۔
اے اللہ! ہم ایسے تمام آرزؤں سے پناہ مانگتے ہیں جو ہمیں دنیا کی الجھنوں میں ڈال دیں اور ہم سے ہماری آخرت چھین لیں۔ اے اللہ! ہم ایسی تمام آرزوؤں سے پناہ چاہتے ہیں جو قیامت کے دن انسان مانگے گا مگر وہ پوری نہ ہو سکیں گی۔ آمین
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین