توبہ و استغفار۔ اول

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہترین صورت میں تخلیق فرمایا لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِيۡمٍ
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر انسان کو دو راہیں بھی عطا کی ایک خیر کا راستہ اور دوسرا شر کا راستہ۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے وہ ان دونوں میں کونسا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ شاکر بن کر زندگی گزارتا ہے یا ناشکر بن کر زندگی گزارتا ہے ۔ اگر انسان شاکر بن کر زندگی گزارتا ہے تو دین و دنیا کی بھلائی سے ہم کنار ہوگا اور اگر دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے تو جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ناشکری اختیار کرنے والوں کو مایوس نہیں کیا وہ انہیں بار بار مختلف اندازوں میں سمجھاتا ہے کہ اپنے گناہوں سے باز آؤ، اور تائب ہوکر اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگو، کیونکہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا کی تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا۔

إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي ( بخآری 7447) میری رحمت میرے غصہ سے بڑھ کر ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ شفیق ہیں تو ایسے شفیق و رحیم خدا سے عفو و کرم کی امیدیں رکھنا عین حق ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے راہ بھٹکے مسافروں کیلئے” توبہ و استغفار” کا دروازہ کھلا رکھا ہے کہ اس کے بندے جب بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے گے تو وہ نا امید نہیں ہوجائینگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞ ( زمر ۔ 53)
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔

یہاں عام انسانوں کو خطاب کیا جاتا ہے کہ اے انسان تم خط کے پتلے ہو، نسیان تمہاری جبلت میں ہیں، اسکی وجہ سے اگر تم اپنے معبود حقیقی کو بھلا بھیٹے ہو تو میری رحمت کے سائے میں آکر توبہ و استغفار کرو۔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ ( مسلم ۔ 6859)۔ لوگو! اللہ کی طرف توبہ کیا کرو کیونکہ میں اللہ سےایک دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں ۔

ایک دوسری روایت میں فرمایا: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ( بخاری۔ 6307)۔ اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں۔۔ ان دونوں حدیثوں کو سمجھنے کیلئے جب آدمی غور وفکر کرتا ہے تو اسکے سامنے دو سوال ذہن میں آتے ہیں کہ استغفار اور توبہ سے کیا مراد ہے۔

استغفار

استغفار کے معنی ہیں مغفرت طلب کرنا ہے ۔ غ ف ر سے بنے ہوئے اس لفط کے معنی ڈھانپنے اور چھپانے کے ہیں۔ مغفر اس فوجی ٹوپی کو کہتے ہیں جو لوہے کی ہوتی ہے، جس سے سر اور چہرہ گردن تک چھپ جاتا ہے اور صرف آنکھیں کھلی رہتی ہے۔ گنہگار بندہ جب اللہ تعالیٰ سے التجا اور دعا کرتاہے کہ اے میرے مولا مجھے معاف کردے میرے گناہ بخش دے، ان کو چھپا دے اُن پر پردہ ڈال دے اسی عرض و معروض اور دعا و التجا کا نام استغفار ہے۔

توبہ

توبہ کے معنی ہے لوٹنث، پلٹنے اور واپس ہونے کے آتے ہی۔ ایمان لا کر آدمی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ایمان لاکر اسے زندگی بھر نبھاتا ہے ، ہمہ پہلو اطاعت و فرمانبرداری کرنی ہے۔ اگر اطاعت کے خلاف اس سے کچھ ہوتا ہے اور قصد و ارادہ کے ساتھ وہ خدا کی مرضی کے خلاف کرتا ہے تو اس طرح گناہ کرکے وہ اطاعت کے دائرہ سے باہر نکل جاتا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے کہ اطاعت کے دائرہ میں واپس آنا ہے۔

توبہ محض اپنے رخساروں پر پیار کے انداز میں دو تھپڑ لگانے اور زبان سے توبہ توبہ کرنا نہیں ہوتا ہے۔ توبہ کیلئے ضروری ہے کہ غلطی ، قصور اور گناہ کا احساس ہو ،دل میں ندامت کا جزبہ پیدا ہو، شرمندگی لاحق ہو ، خجالت طاہر ہو۔ آدمی دل ہی دل میں کٹ کر رہ جائے اور جو گناہ اس سے صادر ہوا ہے اسے چھوڑ دے اس سے الگ ہوجائے اور اللّہ سے عہد کرے کہ اب یہ گناہ نہیں کرونگا اور اگر گناہ کا تعلق بندوں سے ہیں تو انہیں اس پر معافی مانگنی چاہے یا اگر مال و زمین ہڑپ کیا ہو تو واپس کیا جائے۔ سچی توبہ کے چار شرطیں ہیں:

1) ندامت، شرمندگی اور خجالت۔ 2) اس گناہ کو چھوڑ دینا اس سے الگ ہوجانا۔ 3) آئندہ کبھی گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا۔ 4) بندوں کا حق ہے تو اسے معاف کرانا یا واپس کرانا۔

توبہ دراصل وہ ہتھیار ہے جس سے انسان اپنی فطرت کی ساری کمزوریوں کے باوجود اس امتحان گاہ میں جب گناہ کے اندر مبتلا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو پاک و صاف کرنے، دوبارہ صحیح راستٹپر آسکتا ہے اس لئے خدا کے جتنے بھی انبیاء آئے انہونے اللہ کی بندگی اور اسکی اطاعت اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی دعوت بھی دی۔ اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بارے میں فرمایا کہ میں دن میں ستر یا سو بار اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ میں انکو بخش دونگا۔۔

اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَبَيَّـنُوۡا فَاُولٰٓئِكَ اَ تُوۡبُ عَلَيۡهِمۡۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ۞ ( بقرہ ۔ 160) البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اُسے بیان کرنے لگیں، اُن کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔

چنانچہ توبہ دراصل علاج ہے ان سارے مسائل کا جو دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں پیش آتے ہیں۔ ہم ارادہ کرتے ہیں اور ارادہ کمزور نکلتا ہے، منصوبے بناتے ہیں مگر وہ پورے نہیں ہوتے، ہم نیکی کرنا چاہتے ہیں لیکن نیکی کے راستہ پر چل نہیں پاتے، ہم برائی سے بچنا چاہتے ہیں لیکن پھر اس برائی میں لت پت ہوجاتے ہیں۔ اس کشمکش میں صرف ایک ہی چیز ہے جو ہمارا سہارا ہے وہ ہے توبہ کا راستہ اور اللہ کی رحمت۔

توبہ کی اہمیت

حضرت انس   ؓ  بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ اپنے بندے کی توبہ سے ، جب وہ اس کے حضور توبہ کرتا ہے ، اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے ، جس کی سواری کسی جنگل بیاباں میں اس سے دور بھاگ گئی ہو ، جب کہ اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اس پر تھا ، وہ سواری سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ گیا کیونکہ وہ اپنی سواری سے تو مایوس ہو چکا تھا ، وہ اسی کرب میں تھا کہ اچانک دیکھتا ہے کہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے ، اس نے اس کی مہار تھامی ، پھر شدت فرحت سے کہا :۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ، اور شدت فرحت کی وجہ سے وہ غلط کہہ بیٹھا ۔‘‘ ( مشکوٰۃ۔ 2332، مسلم ۔ 6960)

اللہ تعالیٰ کو بندہ کی طرف بار بار رجوع کرنا اور اسکی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنا بے حد پسند ہے اور جو سچے دل سے توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول کرتاہے۔

وَالَّذِيۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِهِمۡ وَمَنۡ يَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰهُ ۖ وَلَمۡ يُصِرُّوۡا عَلٰى مَا فَعَلُوۡا وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ ۞ ( آل عمرآن۔ 135)
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

دعوت اسلامی کی ایک تعبیر استغفار بھی ہے۔ اسلام تمام انسانوں سے کہتا ہے کہ تم مایوس مت ہو تم خواہ کتنے ہی گناہ کر چکے ہو اور کتنے ہی الحاد اور کفر و شرک ، فسق و فجور میں مبتلا رہے ہو۔ اپنے پیدا کرنے والے مالک، آقا اور حاکم سے مغفرت طلب کرو، وہ تمہیں بخش دے گا اور پھر تمہاری زندگی پاک ہو جائیگی کیونکہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

التَّائِبَ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ( مشکوٰۃ۔2363) گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ توبہ اگر واقعی اخلاص سے ہو تو ہمارے سارے گناہ مٹ سکتے ہیں سوائے حقوق العباد کے جب تک انکی ادائیگی یا معافی نہ ملے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں: الانابۃ الرجوع الی اللہ بالاخلاص ۔ اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا نام توبہ ہے۔

بندے کو جب بھی اور جس وقت گناہ کا احساس ہوجائے تو اس کو توبہ کرنا چاہے ، چاہے دن ہو یا رات۔ ایک حدیث قدسی میں فرمایا گیا۔۔ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یـَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّھَارِ، وَیَـبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا ( مسند احمد۔ 10157) بیشک اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلا دیتا ہے، تاکہ دن کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے اور پھر دن کو اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے، تاکہ رات کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے، یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔

اس حدیث پاک کا اصل منشاء تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت توبہ قبول کرنے کیلئے تیار رہتا ہے ۔ وہ گناہگاروں کو زیادہ سے زیادہ معاف کرنا چاہتا ہے ۔ اسلئے گناہگاروں کو جلد جلد توبہ و استغفار کرنا چاہے۔ لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اس حدیث پاک میں ایک خاص انداز اختیار کیا گیا۔ تاکہ بندے توبہ کی اہمیت سے غافل نہ ہو جائے اور کہا گیا توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ( ترمذی۔ 3537) اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ  ( موت کے وقت )  اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے۔۔

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started