توبہ و استغفار۔ دوم

توبہ اور صحبت صالح۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،  کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :    تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ،  پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا  ( کہ وہ کون ہے ۔  )  اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔  وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کی کوئی سبیل )  ہے؟ اس نے کہا :  نہیں ۔  تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس  ( کے قتل )  سے سو قتل پورے کر لیے ۔  اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔  اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ۔  تو اس نے  ( جا کر )  کہا : اس نے سو قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کا امکان )  ہے؟ اس  ( عالم )  نے کہا :  ہاں ،  اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ،  وہاں  ( ایسے )  لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ،  تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری  ( باتوں سے بھری ہوئی ) سرزمین ہے ۔  وہ چل پڑا ،  یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت  نے آ لیا ۔  اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔  رحمت کے فرشتوں نے کہا :  یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔  تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ،  انہوں نے اسے اپنے درمیان  ( ثالث )  مقرر کر لیا ۔  اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ،  وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی  ( زمین کے لوگوں )  میں سے ہو گا ۔  انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ،  چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔
قتادہ نے کہا : حسن  ( بصری )  نے کہا : ( اس حدیث میں )  ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے  ( گھسیٹ کر )  خود کو  ( گناہوں بھری زمین سے )  دور کر لیا تھا ۔ ( مسلم ۔ 7008)

اس حدیث پاک پر غور کرنے سے ہمارے سامنے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔۔ 1)۔ عابد کے بجائے عالم نے اس شخص کی صحیح رہنمائی کی،اسلئے عابد کے مقابلے میں علماء کی فضیلت آئی ہے۔ 2) دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحبت صالح بڑی فائدہ کی چیز ہے، آدمی کو نیک بننے کیلئے جہاں ندامت کی ضرورت ہے وہاں اس سے صالح صحبت کی بھی ضرورت ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں ۔۔ صحبت صالح تر صالح کنند۔ صحبت طالع تر طالع کنند۔ شیخ سعدی اپنی مشہور ز مانہ کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حمام میں میرے دوست نے مجھے خوشبو والی مٹی دی میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عنبر ہے ؟ تیری خوشبو نے تو مجھے مست کر دیا ہے ،مٹی کہنے لگی میں تو مٹی ہی ہوں مگر ایک عرصہ تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں یہ میرے ہم نشیں کے جمال کا اثر ہے ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں۔. اب اگر ایک بار پھر ہم اس پوری حدیث پاک پر غور کریں، اگرچہ اس کا تعلق بنی اسرائیل کے ایک شخص سے ہے جس نے سو قتل کئے تھے۔ لیکن اس کا تعلق ہم سے بھی ہے ۔ اس کہانی کا ایک کردار ہم سب کے سامنے ایک سوالیہ نشان کے طور پر کھڑا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک سے روزانہ نہ جانے کتنے گناہ جانے ان جانے میں سرزد ہوجاتے ہیں اور اگر وہ گناہ شمار کر لئے جائے تو ہزاروں میں ہونگے،لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے، اسلئے ضروری ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کریں۔۔ شیخ العالم رح فرماتے ہیں:۔ توبہ یود کرکھ یمہ بوہ سَرِہ ترکھ۔ توبہ کرن چھے تارہ ونی ناؤ۔ توبہ کرو گے تو دنیا کے اتھا سمندر سے بہ سلامت پار نکل جاؤگے ، توبہ کرنا پار جانے والی کشتی کا نام ہے۔. شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ کی سواری بھی عجیب سواری ہے ابھی بندہ فرش پر تھا اور ابھی عرش پر پہنچ گیا۔

بنی اسرائیل میں ایک سال موسی علیہ السلام کے وقت قحط سالی ہوئی ، جب سب لوگ دعا کی غرض سے ایک میدان میں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا آپ کی جماعت میں گنہگار بندہ ہے اسکو باہر نکالو تبھی آسمان سے بارش ہوگی۔ ادھر اس گنہگار کا دل ٹوٹ گیا اور اس نے دل ہی دل میں توبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا یا اللہ ابھی وہ گنہگار بندہ باہر نکلا ہی نہیں بارش کیسے ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے کہا اب وہ گنہگار بندہ نہیں بلکہ توبہ کرکے ایک صالح بندہ بن چکا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے اللہ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے کہا جب وہ گنہگار تھا تب بھی میں نے اس کا پردہ کیا آج تو وہ میرا خاص بندہ ہے میں کیسے اس کو رسوا کروں۔ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ “توبہ روح کا غسل ہے یہ جتنی بار کی جائے روح میں نکھار پیدا ہوتا ہے”

استغفار کی برکتیں

توبہ و استغفار سے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں سے محفوظ و مامون فرمائے گا وہی دنیا میں بھی یہ ایک بندے کیلئے اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں نے اپنی قوم کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ۔

وَّاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُمَتِّعۡكُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَ يُؤۡتِ كُلَّ ذِىۡ فَضۡلٍ فَضۡلَهٗ ‌ؕ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ كَبِيۡرٍ ۞ ( ھود۔ 3)
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں۔ “متاع حسن سے مراد پاکیزہ اور حلال رزق، اس رزق میں برکت اور قلبی اطمینان اور سکھ چین کی زندگی ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اللہ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ موجود ہوں (8: 33) ” رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:۔ مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ( ابوداؤد۔ 1518)۔ جو کوئی استغفار کا التزام کر لے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ مولانا مودودی رح نے تفہیم القرآن میں ایک واقع بیان کیا ہے کہ”ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں سورة نوح کی یہ آیات سنا دیں”۔ فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا ۞
يُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا ۞
وَّيُمۡدِدۡكُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِيۡنَ وَيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ جَنّٰتٍ وَّيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ اَنۡهٰرًا ۞ ( سورہ نوح آیت نمبر 10۔ 12) میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔
تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کے بہت سے اسلوب منقول ہیں، میں یہاں صرف دو پر اکتفا کرتا ہوں۔

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ۔   ( الترمذی ۔ 3434، ابوداود 1516)۔ “اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے“

دوسری روایت میں فرمایا:

أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِی لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ ( مسند احمد۔ 5534) میں اس اللہ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ نہیں ہے کوئی معبودِ برحق، مگر وہی، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے اور میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

آخری بات

ہر شخص اپنے گناہوں سے خوب واقف ہے گناہوں کو یاد کرکے احساس ندامت کے ساتھ اللہ سے بار بار مغفرت کی درخواست کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ غرور کے جراثیم سے انسان کا دل داغدار نہیں ہوتا۔

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started