کسی بھی دینی تحریک و تنظیم کے استحکام اور اس کے اعلیٰ مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیےضروری ہے کہ اس کے ارکان و متفقین تربیت و تزکیہ کے اعلیٰ معیار پر ہوں اور اخلاقیاتِ عالیہ کا وافر حصہ انھیں حاصل ہو۔
تربیت کے حوالے سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہے کہ اگر آدمی کا ارادہ مضبوط نہ ہو اور وہ تربیت کے ارادے سے کام نہ لیں تو دنیا کی بہتر سے بہتر رہنمائی بھی اس کےلئے بالکل بے سود ہے۔ تربیت کیلئے قرآن سے بہتر کتاب دنیا میں اور کیا ہوسکتی ہے ، لیکن اس کا نفع بھی انہیں لوگوں کو پہنچتا ہے جو اس کی ہدایت ہر عمل کرنے تیار ہوں۔ ان لوگوں کو اس کا کوئی نفع نہ ملے گا جو قرآن کی تعریف میں دن رات ایک کرینگے لیکن اس کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے تیار نہ ہونگے۔ ان ہی لوگوں کے متعلق تو الله تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔
لَهُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اَعۡيُنٌ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اٰذَانٌ لَّا يَسۡمَعُوۡنَ بِهَا ؕ اُولٰۤئِكَ كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ۔( اعراف۔ 179)
ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو ئے گئے ہیں۔
تربیت وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اپنے نفس کی اصلاح و تربیت کیلئے اُٹھ کھڑا ہوا ہو اور اس راہ میں ہر صعوبت خوش دلی کے ساتھ جھیلنے، ہر قربانی پیش کرنے اور جان و مال کی ہر بازی لگا دینے کیلئے ہمہ تن تیار ہو۔ جس میں اس طرح کا ارادہ نہ پایا جائے وہ کبھی تربیت حاصل کر ہی نہیں سکتا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَتَمَنّٰی عَلٰی اللّٰہِ۔ (احمد ۔ 8949)
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس میں عاجزی پیدا کر لے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور عاجز اور بے بس وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنے خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ تعالیٰ پر تمنا کر نے لگے۔
اس ماہ رفقاء کی تربیت کے حوالے سے جس کتاب کا کتاب کیا گیا تھا وہ تربیت کے موضوع پر اہم کتاب ہے۔
سب سے پہلے ہمارے ایمان میں پختگی ہونی چاہے،
ایمانیت میں پختگی سے مراد وابستگان کی‘انفرادی و اجتماع سطحوں پر‘ اس طرح تربیت کرنا کہ اسلام کے بنیادی عقائد توحید ‘ رسالت اور آخرت سے متعلق بطور خاص ان کی فکر پختہ ہوتی جائے۔ان عقائد کے تقاضوں کے مطابق ان کے انفرادی و اجتماعی کردار میں مسلسل نکھار آتا جائے۔ وہ اپنی زندگی سے ہر طرح کی منافقت کو باہر نکالے اور یکسو ہو کر الله تعالٰی کا پسندیدہ دین اسلام کو قائم کرنے کی کوشش کرے۔
دوسری چیز جو مطلوب ہے وہ ہے فکری ہم آہنگی اس سے مراد تمام وابستگان اپنی فکر اور مزاج کے اعتبار سے یکساں اور عمل کے لحاظ سے متحرک نظر آئیں۔ فکر و عمل میں ہم آہنگی کیلئے حسب ذیل امور کے تحت کوشش ہونی چاہئے: جماعت کے عقیدہ ‘ نصب العین اور طریق کار سے متعلق وابستگان کافہم وشعور ایک جیسا ہو‘ کوئی بھی فرد کسی قسم کے تذبذب کا شکار نہ ہو، جماعت کی بنیادی پالیسی کی صحیح سمجھ اوراس سے مکمل اتفاق ہو ، تحریک اسلامی کے مزاج کی صحیح پہچان ہو ۔
تیسری چیز جو مطلوب ہے وہ ہے نظم و ضبط۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم ایک ٹیم کی طرح کام کریں، اگر رفقاء ایک ٹیم کی طرح کام نہ کریں تو ایک جماعت اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ناکام ہوسکتی ہے، ہمارے رفقاء آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہو جس کی ہر اینٹ دوسرے اینٹ کو سہارا دیتی ہے ۔ مل جل کر کام کرنے سے آدمی کی قوت و ہمت میں بڑا اضافہ ہوجاتا ہے۔
کام کرنے والے رفقاء قوی بھی ہوتے اور کمزور بھی۔ جب کمزور ساتھی کبھی ہمت ہارنے لگتا ہے تو قوی رفقاء کی عزیمت اس کی ہمت میں اضافہ کرتے ہیں، اور جب کبھی وہ مایوس ہوجاتا ہے تو دوسرے ساتھی اس سے تسلی دیتے ہیں اور جب وہ کبھی اس راہ میں کسی آزمائش سے دوچار ہوجاتا ہے تو سارے رفقاء اس کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں۔ نظم و ضبط کی پابندی ہی تحریک اسلامی کو اپنے منزل پر پہنچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
الله تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمۡ بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ۔
( سورہ صف۔ 4)
اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہے:
اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسکی کیفیت ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار ” کی سی ہو۔
( تفہیم القرآن)
کوئی بھی تحریک اپنے اندرون کی مضبوطی ہی سے معاشرہ میں صالح تبدیلیاں لاسکتی ہے۔نظم کے ڈھیلے پن سے نہ فرد کا ارتقا ممکن ہے اور نہ ہی معاشرہ کی تعمیر۔
اسکے علاوہ ہمیں ان تمام عیوب سے جماعت کو پاک و صاف کرنا ہوگا جو کسی بھی تحریک کیلئے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے بد خواہی، بد ظنی، تنگ دلی، کام چوری، وغیرہ۔
اس کے علاوہ رفقاء کیلئے بہتر اجتماعی ماحول فروغ دیا جائے‘اس کے بغیر نظام تربیت موثر نہیں ہوسکتا۔ تحریک کا ماحول محبت و الفت اور رحماءُ بینھم کا ماحول ہونا چاہئے۔ہر فرد جماعت کو ‘ اپنے رفقاء کے درمیان سکون و اطمینان محسوس ہو‘وہ دوسرے ماحول کی بہ نسبت تحریکی ماحول میں رہنا دل سے پسند کرے۔ ماحول ایسا ہو کہ بڑے چھوٹوں سے محبت و شفقت سے پیش آتے ہوں اور چھوٹے اپنے بڑوں کا عزت و احترام کرتے ہوں اور ان کے تجربات سے سیکھنے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوں۔ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہو‘ مسائل کے حل پر توجہ ہواور ٹیم اسپرٹ نمایاں طور پرمحسوس ہو۔
تبصرہ۔ تربیتی نصاب