Design a site like this with WordPress.com
Get started

حسد ایک خطرناک بیماری

علامہ ابن البر رح فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ محسود تھے، ان کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کی جاتی تھی جو ان میں نہیں ہوتی تھی اور ایسے ایسے امور گڑھے جاتے تھے جو ان کی عظمت و شان کی قطعاً مناسب نہیں۔

امام اعظم رح کو بھی اس کا شدید احساس تھا کہ بہت سے لوگ میرے تئیں حسد کی آگ میں جل رہے ہیں، کبھی کبھی اس کا اظہار بھی فرمایا، چنانچہ امام وکیع بن الجراح رح فرماتے ہیں کہ میں امام ابو حنیفہ رح کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ سر جھکا ئے متفکر بیٹھے تھے مجھے دیکھ کر فرمایا، کہاں سے آرہے ہو؟ عرض کیا قاضی شریک کے پاس سے، یہ سن کر سر اٹھایا اور یہ شعر پڑھا ؀

إِن يَحسُدوني فَإِنّي غَيرُ لائِمِهِم

قَبلي مِنَ الناسِ أَهلُ الفَضلِ قَد حُسِدوا

فَدامَ لي وَلَهُم ما بي وَما بِهِمُ

وَماتَ أَكثَرُنا غَيظاً بِما يَجِدُ

گو لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں لیکن میں ان کو ملامت نہیں کرتا، مجھ سے پہلے اہل فضل گزر چکے ہیں ان پر بھی حسد کیا گیا، ہاں تو جو چیز میرے پاس ہے وہ میرے لئے دوامی ہوگی اور جو ان کے پاس تھی وہ ان کےلئے دوامی ہوگی، بہت سے لوگ حسد کے غم میں گھل کر موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔
( حضرت ابو حنیفہ رح کی سیاسی زندگی۔ از علامہ سید مناظر احسن گیلانی، صفحہ نمبر 19)

انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی بیماری سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ یہ بیماری کبھی تو جسمانی ہوتی ہے اور کبھی روحانی ہوتی ہے۔ روحانی بیماری میں ایک خطرناک بیماری حسد کے نام سے مشہور ہے، یہ بیماری انسان کو طبعی موت مرنے سے پہلے ہی مار دیتی ہے ۔ حسد اتنی خطرناک بیماری ہے کہ زمین پہ سب سے پہلا قتل ہی حسد کی وجہ سے ہوا۔
رسول ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔
( بخاری۔ رقم الحدیث۔ 6590)

ایک اور حدیث پاک میں رسول ﷺ نے حسد نہ کرنے والے صحابی کو جنت کی بشارت دی۔

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تمہارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے۔ پس ایک انصاری آدمی آیا، وضو کی وجہ سے اس کی داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے لٹکائے ہوئے تھے، اگلے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی آدمی اسی پہلے والی کیفیت کے ساتھ آیا، جب تیسرا دن تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرما دی کہ تمہارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے ۔ اور (اللہ کا کرنا کہ) وہی بندہ اپنی سابقہ حالت کے ساتھ آ گیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اس آدمی کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میرا ابو جان سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں نے ان کے پاس تین دن نہ جانے کی قسم اٹھا لی ہے، اگر تم مجھے اپنے پاس جگہ دے دو، یہاں تک کہ یہ مدت پوری ہو جائے، اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہو گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، تشریف لائیے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے بیان کیا کہ اس نے اس آدمی کے ساتھ تین راتیں گزاریں، وہ رات کو بالکل قیام نہیں کرتا تھا، البتہ جب بھی وہ جاگتا اور اپنے بستر پر پہلو بدلتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا اور تکبیرات پڑھتا، یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے اٹھتا، علاوہ ازیں اس کا یہ وصف بھی تھا کہ وہ صرف خیر و بھلائی والی بات کرتا تھا، جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میں اس کے عمل کو حقیر سمجھوں، تو میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! میرے اور میرے ابو جان کے مابین نہ کوئی غصے والی بات ہوئی اور نہ قطع تعلقی، تیرے پاس میرے ٹھہرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین بار یہ فرماتے ہوئے سنا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے پاس آنے والا ہے۔ اور تین بار تو ہی آیا، پس میں نے ارادہ کیا کہ تیرا عمل دیکھنے کے لیے تیرے گھر میں رہوں اور پھر میں بھی تیرے عمل کی اقتدا کروں، لیکن میں نے تجھے دیکھا کہ تو تو زیادہ عمل ہی نہیں کرتا، اب یہ بتلا کہ تیرے اندر وہ کون سی صفت ہے کہ جس کی بنا پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیث بیان کی (اور اس کا مصداق بنا)؟ اس نے کہا: میرا عمل تو وہی ہے جو تو نے دیکھ لیا ہے، پھر جب میں جانے لگا تو اس نے مجھے دوبارہ بلایا اور کہا: میرا عمل تو وہی ہے، جو تو نے دیکھ لیا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ میرے نفس میں کسی مسلمان کے خلاف کوئی دھوکہ نہیں ہے اور جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے جو خیر عطا کی ہے، میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا، سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بس یہی چیز ہے، جس نے تجھے اس مقام پر پہنچا دیا ہے اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ ( مسند احمد۔ 9779)

حضرت یوسف علیہ سلام کے بھایئوں نے بھی حسد کی بناء پہ اپنے بھائی پہ ظلم کیا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اکثر کرتے تھے۔
وَاهْدِ قَلْبِي،‏‏‏‏ وَسَدِّدْ لِسَانِي،‏‏‏‏ وَثَبِّتْ حُجَّتِي،‏‏‏‏ وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ قَلْبِي
( ترمذی۔ 3830)
میرے دل کو صحیح راستے پر لگا، میری زبان کو مضبوط اور درست کر دے، میری دلیل و حجت کو مضبوط فرما، اور میرے دل سے بغض و حسد ختم کر دے۔
حسد انسان کا اس وقت تک پیچھا کرتا رہتا ہے جب تک وہ اسے پلٹ کرنہ مار دے اور یہ ایک بار مارنے سے بھی نہیں مرتا اسے بار بار مارنا پڑتا ہے اس کا علاج محنت قناعت اور شکرگزاری میں رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطافرمائے اگرکسی کو اس بات کا احساس ہو وہ خطا کر رہا ہے تو اس کے دل میں ایمان ہونے کی یہی علامت کافی ہے اور یہی بات اس کو مطمئن کرتی ہے اور وہ نارمل زندگی گزارتا ہے۔کوشش کروکہ زندگی کا ہر لمحہ سب کے ساتھ اچھے سے گزرے کیونکہ زندگی نہیں رہتی مگر یادیں ہمیشہ رہتی ہیں۔

اعجاز جعفر

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: