عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؓأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمْ یَکُنْ یُسْئَلُ شَیْئًا عَلٰی الْاِسْلَامِ إِلَّا أَعْطَاہُ، قَالَ: فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ فَأَمَرَ لَہُ بِشَائٍ کَثِیْرٍ بَیْنَ جَبَلَتَیْنِ مِنْ شَائِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ: فَرَجَعَ اِلٰی قَوْمِہِ فَقَالَ: یَاقَوْمِ! أَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِی عَطَائً مَا یَخْشَی الْفَاقَۃَ۔ (مسند أحمد: 111)
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام پر جو چیز بھی مانگ لی جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دے دیتے تھے، ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بہت ساری بھیڑ بکریاں دینے کا حکم دیا، یہ زکوۃ کی بکریاں تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان والی گھاٹی ان سے بھر جاتی تھی۔ وہ بندہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور ان سے کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح کثرت سے دیتے ہیں کہ ان کو فاقے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شخصیت پر خرچ کیا اور بڑی مقدار میں خرچ کیا ، جبکہ مسجد نبوی اور صفہ سمیت عمارتوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ کفر سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے، دور حاضر کے مسلمان اس سنت نبوی کو ترک کر چکے ہیں ، بالخصوص مساجد و مدارس کے منتظمین اور فنڈ جمع کرنے والی دوسری تنظیمیں ، ہر ایک کی فکر یہ کہ اسکے ادارے اور مسجد کی عمارت شاندار ہونی چاہے ، اس قسم کی ٹائلیں لگنی چاہے ، مرکزی دروازے پر کشش ہونی چاہے۔ لیکن اس محلے کے غریب اور فقیر لوگوں کی معرفت تک نہ ہوگی اور ائمہ و خطباء ومدرسین کی کفالت کے وقت بخل اور شکووں کا بھوت رقص کرنے لگے گا اور صبر و برداشت کی تلقین شروع ہوجائے گی ، اگرچہ یہ لوگ اپنے آپ کو خادمین اسلام سمجھتے ہیں ، لیکن ان کو خدمت اسلام کا شعور تک نہیں ہے۔ (اسلام 360)