کچھ مہینے پہلے ایک بزرگ جو اکثر میرے دکان پر آتا ہے اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ بیٹھتا ہے اور اس درمیان ہمارے درمیان جو باتیں ہوتی ہے وہ صرف خدمت خلق کے حوالے سے ہی ہوتی ہے وہ اس لئے بھی کیونکہ محترم موصوف اپنے علاقے میں بیت المال کے ناظم بھی ہے ۔ محترم اگر چہ اس وقت بڑھاپے کے دور سے گزر رہا ہے اور جسمانی طور پر بھی کمزور ہے مگر اس کے حوصلے بلند ہے اور اسکی رگوں میں جوان خون دوڈ رہا ہے ، وہ غریبوں، مسکینوں، لاچاروں ، بیواؤں اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ باضابط طور انہونے بیت المال سے غریبوں کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کئے ۔ اسکے علاوہ غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے بھی وہ پیش پیش رہتا ہے ، نقدی کے علاؤہ بطور جنس کپڑے (وردن، چپل ) وغیرہ سے بھی انکی مدد کرتا ہے ۔ غرض یہ جواں سال بزرگ ان نوجوانوں کے لئے قابل تقلید ہے جو اپنا قیمتی وقت فضول مشغلوں میں ضائع کرتے ہیں۔
ایسے ہی پر خلوص خدمت خلق کرنے والوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السَّاعِیْ عَلَی الْاَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اَوْ کَالَّذِیْیَقُوْمُ اللَّیْلَ وَیَصُوْمُ النَّھَارَ۔
( مسند احمد 9069)
بیوہ اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے یا رات کو قیام کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
محترم موصوف نے مجھ سے ایک دن اپنی بیٹی کی شادی کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ، جب میں اپنی بیٹی کی شادی کیلئے دوڈدھوپ کر رہا تھا تو ایک دن اسی سلسلے میں ایک رشتہ آیا جو کہ گورنمنٹ آفیسر تھا اور اس کا باپ بھی گورنمنٹ ملازم تھا اور زمین زراعت کے علاؤہ بڑا سا مکان بھی تھا۔ بیٹی کی شادی کیلئے ا ایسا رشتہ ملنا موجودہ مادی دور میں کسی کرشمے سے کم نہیں ہے۔ غرض جب میں ان کے علاقے میں لڑکے کے اخلاق و کردار اور اسکی سیرت و اطوار کے بارے میں معلوم کرنے لگا تو سارے لوگوں نے انکی تعریف کے پُل باندھے ، کیونکہ لوگوں کے اندر مالدار لوگوں کی عزت و توقیر تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جبکہ غریب اور مسکین لوگوں کی آج کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا۔ الغرض میں نے لوگوں سے انکے نمازوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں اس سوال کا جواب ہر ایک پاس نفی کے علاؤہ کچھ نہ تھا۔ میں نے سوچا جو اللہ کے حقوق پامال کرتا ہو وہ لوگوں کے حقوق بھی ضرور پامال کرتا ہوگا، کیونکہ جس کو اللہ کا خوف نہ ہو وہ آفیسر بھی کہاں ایمان دار ہوگا ۔ اس لئے میں نے رشتہ سے انکار کیا اور جب ان لوگوں کے پاس میرے انکار کی اصل وجہ پہنچی تو اس کے والد نے واپس جواب بھیجا کہ میرے لڑکے کو نماز پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ان کے پاس نوکری ہے ، بڑا آفیسر ہے وغیرہ وغیرہ۔
محترم موصوف نے اس کے بعد اپنی بیٹی کا نکاح دوسری جگہ طے کیا اور وہ نکاح آج تک خیر و برکت کا باعث بنا ہوا ہے۔
ہمارے سماج میں ایسے بہت سارے لوگ ہے جو دینداری کے مقابلے میں دنیاداری کو ترجیح دیتے ہیں ۔
انتخاب زوج کے لیے اکثر لوگ لڑکے کے مال ودولت کو دیکھ کر لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اگر لڑکے کے پاس زیادہ مال ودولت کی بجائے ضروریات زندگی پوری کرنے کی استطاعت اور اچھا کردار ہو تو دونوں کی زندگی میں محبت وسکون اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جیسی نعمتیں بآسانی نازل ہو سکتی ہیں۔ اور اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا جَاء َکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ أَمَانَتَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوهُ کَائِنًا مَنْ کَانَ، فَإِنْ لَا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ، أَوْ قَالَ: عَرِیضٌ.
جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا۔
عبد الرزاق، المصنف، 6: 152، رقم: 10325، بيروت: المكتب الإسلامي
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَه وَخُلُقه فَزَوِّجُوْ اِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ.
جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔
(ترمذي)
لہٰذا بہترین انتخاب زوج کے لئے معیار یہ ہونا چاہیے کہ مرد دین دار ، با اخلاق اور وسیع النظر ہو اور اہل خانہ کو نیکی کی رغبت دلانے والا ، حلال رزق کمانے والا اور اپنے خاندان یعنی بیوی اور بچوں کی کفالت کا اہل ہو۔