مال کا لالچی انسان کبھی اہل ایمان یا اچھا مسلمان نہیں بن سکتا ہے
ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514
ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں،رسول اللہﷺنے فرمایا:مال کا لالچ اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں ہرگز جمع نہیں ہوں گے۔ (نسائی)مومن اور مسلم کہتے ہی اُس انسان کو ہیں جو ایمان والا ہو۔جس انسان کے متعلق نبیﷺ فرما رہے ہیں کہ مال کا لالچی ایمان سے محروم ہوتا ہے، تو پھر ایسے انسان کو مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ کون دے سکتا ہے۔جس کو نبیﷺ ایمان والا مانتے ہی نہیں ہیں، بھلا قیامت کے دن اُس کی سفارش کیسے کریں گے ؟ کیا آ ج مال کے لالچی مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے ؟
مال کی لالچ انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔مال لا کالچی انسان مال جمع کرنے کی دھن میں مال خرچ کرنے کی صفت سے محروم ہو جاتا ہے۔وہ اس فرمان رسولﷺ کو بھی نہ جانتا ہے نہ مانتا ہے:
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:خدا کی راہ میں دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور جب کوئی بندہ مال دینے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو سائل کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے۔(المنذری بحوالہ طبرانی)حسن بصریؒ(تابعی) کا بیان ہے رسول اللہﷺنے اللہ عزو جل کا قول نقل کیا:اللہ عزو جل فرماتا ہے اے آدم کے بیٹے تو اپنا مال میرے خزانے میں جمع کر کے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ،نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ،اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر، میرے پاس رکھا گیا مال میں تجھے پورا دے دوں گا اُس دن جب تو اُس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔(طبرانی)
بدنصیب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اپنی کوشش اور محنت سے یہ مال کمایا ہے۔حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ اللہ نے اُسے ضرورت سے زیادہ مال دے کر اُس کے ایمان کو شدید آزمائش اور فتنے میں ڈال دیا ہے۔مال کی لالچ میں پڑ کر وہ اللہ اور رسول کی محبت سے محروم ہو چکا ہے۔اللہ اور رسول پر اُس کا ایمان بھی ختم ہو چکا ہے۔اللہ کی جگہ وہ اپنے مال کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے۔ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال دنیا کی ہر مصیبت ٹال دے گا۔ اُس کو دنیا کی ساری خوشیاں مہیا کرا دے گا۔مال و دولت کو خدا سمجھنے والا اللہ کی قدرت کا انکار کرنے والا بن بیٹھا ہے۔آج کی دنیا میں ضرورت سے زیادہ دولت مندوں کا کیا حال ہو رہا ہے،یہ اُن کی نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ سب کچھ پا کر بھی یہ بدنصیب و بدبخت زندگی کی سچی خوشی سے محروم ہیں پھر بھی اُن کی عقل پر اللہ نے پتھر ڈال دیا ہے کہ اُن کو بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے اور وہ اپنے مال سے اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کی جگہ مال کی لالچ میں اپنی دنیا اورآخرت دونوں کو تباہ و برباد کر ر ہے ہیں۔یہ بدبخت اللہ کے دیے ہوئے مال سے اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ بھی نہیں نکالتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ مال قیامت کے دن اُن کو کیا عذاب پہنچانے والا ہے۔اس حدیث کو پڑھئے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اُس نے اُس کی زکوۃ نہ ادا کی تو اُس کا یہ مال گنجا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دوسیاہ نقطے ہوں گے۔قیامت کے دن وہ سانپ اُس کی گردن میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گاپھر وہ اُس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری)
مال کے لالچی بدنصیبوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پیارے نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کے لئے بد دعا کی ہے۔جس کے لئے نبیﷺ بد دعا کریں قیامت کے دن اُس کی شفاعت اور مدد کیسے کریں گے ؟
حضرت ابوذر غفاری ؓ روایت کرتے ہیں،میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس وقت نبی ﷺکعبہ کے سایے میں بیٹھے تھے۔ جب نبیﷺ کی نظر مجھ پر پڑی تونبیﷺ نے فرمایا: وہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہونے والے ہیں۔ میں نے دریافت کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان، کون لوگ تباہ و برباد ہونے والے ہیں؟نبیﷺ نے فرمایا: وہ لوگ تباہ و برباد ہوں گے جو مالدار ہونے کے باوجود راہ خدا میں مال خرچ نہیں کرتے۔کامیاب و کامراں صرف وہ ہوں گے جو اپنی دولت لٹائیں،سامنے والوں کو دیں، جو پیچھے ہیں ان کو دیں اور بائیں طرف کے لوگوں کو دیں اورایسے مالدار بہت ہی کم ہیں۔ (بخاری، مسلم)
جس مسلمان نے کسی بھی طرح ضرورت سے زیادہ دولت کما لی ہے اور اپنی دولت اللہ کی راہ میں (یعنی دین کی سربلندی کے کاموں میں یا محتاج و مجبور بندوں پر)خرچ نہیں کر رہا ہے اُس کے متعلق نبیﷺ فرمارہے ہیں کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ تباہ و برباد ہو گیا۔ہو گا نہیں ہو گیا، یعنی کام مکمل ہو گیا۔اور کامیاب اور بامراد اُن لوگوں کو بتا رہے ہیں جو آگے پیچھے دائیں بائیں یعنی ہر طرح کے ضرورت مند لوگوں پر اپنی دولت خرچ کریں۔غور فرمائیے، آج جتنے بھی سرمایہ دار اور حد سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں وہ اپنی شان و شوکت، سیکوریٹی،شادی بیاہ، برتھ ڈے او ر دوسری تقریبات میں تو بے انتہا دولت خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ کے ضرورت مند بندوں کی مدد نہیں کرتے۔ایسے لوگ اگر نمازی اور حاجی بھی بن جائیں تو نبی ﷺ کے نزدیک ان کی حیثیت ایمان والے جیسی نہیں ہے۔کیا ایسے لوگ حشر کے میدان میں رسول اللہﷺ کی شفاعت کے حقدار ہو سکیں گے ؟
معلوم ہونا چاہئے کہ جب انسان مال کا لالچی بن جاتا ہے تو پھر اُس کے اندر سے حلال اور حرام کی تمیز بھی ختم ہو جاتی ہے۔وہ حرام مال کمانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔ایسے دیوانے کے متعلق نبیﷺ کیا فرمارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
نبی ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اُس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اللہ نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ اے ایمان والوجو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اُس کا کھانا حرام ہے، اُس کا پانی حرام ہے، اُس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔(مسلم)
مال کا لالچی ایسا سنگ دل اورظالم بن جاتا ہے کہ اُس کو اپنے سگے بھائی بہنوں،بھائی کی بیوہ اور یتیم بھتیجے بھتیجیوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ باپ کے انتقال کے بعد جب جائیداد کے بٹوارے کا وقت آتا ہے تو وہ بھائی کا حصہ بھی ہتھیا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری تعلیم اور پرورش پر جو ابا نے خرچ کیا تھا وہ تمہارا حصہ ادا ہو گیا۔اسی طرح جب بہن کی شادی کرتا ہے تو بہن کی ضرورت کے لئے نہیں اپنی جھوٹی شان دکھانے کے لئے لاکھوں لاکھ فضول خرچ کر کے بہن کی شادی کرتا ہے اور بہن کو باپ کی جائیداد سے محروم کر کے کہتا ہے کہ تمہارا حصہ تمہاری شادی میں خرچ ہو گیا۔اگر باپ کی موجودگی میں کسی بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو باپ کے مرنے کے بعد اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ اور یتیم بھتیجے بھتیجیوں یہ کہہ کر جائیداد سے محروم کر دیتا ہے کہ شریعت نے جائیداد میں تمہارا حصہ رکھا ہی نہیں ہے۔ اپنے ساتھ اپنے مرحوم باپ کو بھی جہنم میں پہنچانے کا انتظام کرلیتا ہے۔باپ کو جب معلوم تھا کہ اُس کے مرنے کے بعد اُس کے مرحوم بیٹے کی بیوی بچوں کو اُس کی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا تو اُسے وصیت کرکے جانا چاہئے تھا کہ اُس کی بیوہ بہو اور اُس کے مرحوم بچوں کو اُس کی جائیداد سے اتنا حصہ ملے گا۔مگر اُس بے علم اور غافل انسان نے اپنا فرض نہیں ادا کیا اور اُس کا بد بخت بیٹا بھی ناانصافی اور ظلم کر کے خود جہنم میں جانے پر تلا ہوا ہے۔پڑھئے نبیﷺ ایسے بد نصیب کے متعلق کیا فرما رہے ہیں؟
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے اپنے وارث کی میراث کا حصہ کاٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت سے اُس کا حصہ کاٹ لے گا۔(ابن ماجہ،بیہقی)
جن لوگوں کے متعلق معلوم ہے کہ اُنہوں نے جائیداد کے بٹوارے میں بے ایمانی کر کے اپنے بھائی بہنوں کا حق مار لیا ہے،زمین کی ناجائز تجارت کر کے حد سے زیادہ دولت کما لی ہے،یا چیر مین اور ڈائرکٹر بن کر ناجائز روپے کما رہے ہیں،اُن کے متعلق شریعت کا فتویٰ ہے کہ اُن کی کمائی حرام ہے۔ایسے لوگ اگر نمازی اور روزے داربن جائیں یا حج بھی کر لیں تو اُن کی عبادت تو دور دعا تک قبول نہیں ہوگی۔مذہبی رہبر اور رہ نما ایسے لوگوں کی خوشامد میں کیوں لگے رہتے ہیں ؟
مال کا لالچی اپنی اولاد کے لئے حرام کمائی ہوئی دولت چھوڑ کر خود جہنم میں چلا جاتا ہے۔ پڑھئے پیارے نبی ﷺ ایسے بدنصیبوں کے متعلق کیا ارشاد فرمارہے ہیں:
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ اپنے بندوں میں سے دو بندوں کو قیامت کے دن بلائے گا۔اُن دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کی کثرت سے نوازا تھا۔اُن میں سے ایک سے پوچھے گا اے فلاں! وہ کہے گا بندہ حاضر ہے،ارشاد ہو کیا حکم ہے ؟ اللہ کہے گا میں نے تجھے مال و اولاد کی کثرت سے نوازا تھا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب تو نے بلا شبہہ مجھے بہت سی اولاد اورمال سے نوازا تھا۔اللہ تعالیٰ کہے گا میں نے تجھے جو مال دیا تھا اُس کا تونے کیا کیا؟اُس سے کس طرح کے کام کیے؟وہ کہے گا اے رب میں نے وہ مال اپنی اولاد کے لیے چھوڑا تاکہ میرے بعد وہ تنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کہے گا اگر تم حقیقت واقعہ کو جان لیتے تو بالکل نہیں ہنستے اور ہمیشہ غمگین رہتے۔لے میں تجھے بتاتا ہوں تیری اولاد تنگ دستی کی زندگی گزار رہی ہے(تیرا منصوبہ تیری اولاد کے کام نہ آیا)پھر دوسرے کو بلائے گااور اسی طرح کا سوال اُس سے کرے گا۔وہ کہے گا اے میرے رب میں نے تیرا بخشا ہوا مال تیری بندگی کی راہ میں خرچ کر دیا اور اپنی اولاد کے متعلق تیرے کرم پر بھروسہ کیا اور اس یقین کے ساتھ انہیں تیرے کرم کے حوالے کیا کہ تو اُنہیں برباد نہ ہونے دے گا۔اللہ تعالیٰ کہے گا سن اپنی اولاد کے سلسلہ میں تو نے جس بات پر اعتماد کیا تھا، تیرے مرنے کے بعد میں نے اُنہیں وہی چیز دی ہے۔وہ خوش حالی اور تونگری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (طبرانی)
جن لوگوں نے جماعت یا امارت بنا رکھی ہے، مدرسے اور درس گاہیں کھول رکھی ہیں، وہ دین کے کام، شریعت کی تعلیم اور یتیم و نادار کی کفالت کے نام پر لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں۔لیکن ان کاموں پر خرچ کرنے کی جگہ جائیدادیں خریدتے ہیں اور بینک بیلینس بڑھاتے رہتے ہیں یعنی یتیم، نادار، بیوہ، مسکین کا حق مار کر کھاتے اور جمع کرتے رہتے ہیں۔پڑھئے ایسے لوگوں کے متعلق پیارے نبیﷺ کیا فرما رہے ہیں:
ابوہریرہؓ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا جس میں مال غنیمت کی چوری کے مسئلے کو بڑی اہمیت کے ساتھ پیش کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا:میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اُس کی گردن پر اونٹ ہے جو زور سے بلبلا رہا ہے اور یہ آدمی کہہ رہا ہے اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے اور میں کہوں میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا، میں نے تو دنیا میں تجھ تک بات پہنچا دی تھی……(بخاری،مسلم)
دنیا میں مال کا لالچی خوش حالی کی زندگی گزارنے کے خیال میں جو حرام مال جمع کرنے میں لگا ہوا ہے اُس کا آخرت میں کیا انجام ہوگا اس حدیث رسولﷺ میں پڑھئے:
رسول اللہﷺنے فرمایا:دنیا کے سب سے خوش حال جہنم کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جہنم میں ڈال دیاجائے گا،جب آگ اُس کے جسم پر اپنا پورا اثر دکھائے گی تب اُس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے اچھی حالت دیکھی ہے ؟ تجھ پر کچھ عیش و آرام کا دور گزرا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں تیری قسم اے میرے رب کبھی نہیں! پھر دنیا میں انتہائی تنگی کی حالت میں زندگی گزارنے والے جنت کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جنت میں رکھا جائے گا۔ جب اُس پر جنت کی نعمتوں کا رنگ خوب چڑھ جائے گاتب اُس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے دنیا میں تنگی دیکھی ہے؟ کبھی تجھ پر تکلیفوں کا دور آیا ہے؟وہ کہے گا نہیں میرے رب میں کبھی تنگ دستی اور محتاجی میں گرفتار نہیں ہوامجھ پر تکلیفوں کا کبھی کوئی دور نہیں آیا۔(مسلم)
اس وقت چھوٹے بڑے جتنے عالم، فاضل، مولوی، مولانا، حافظ اورقاری دکھائی دیتے ہیں کیا وہ لوگ عام انسانوں کو دین کی تعلیم دے کر اُن کو شریعت کا پابند بنا رہے ہیں ؟ یا سب کے سب اپنی پیٹ پوجا میں لگے ہوئے ہیں اور اُن کی آمدنی حلال ہے کہ حرام اس کی بھی پروا نہیں کر رہے ہیں ؟ اللہ نے اُن کو دین کا علم حاصل کرنے کی جو فضیلت عطا کی تھی اُس کے ذریعہ دنیا میں بھی اُن کو آرام و آسائش کی زندگی عطا کرتا،انہیں دنیا میں عزت، محبت اور مقبولیت ملتی اور آخرت میں بلند درجات نصیب ہوتے، لیکن یہ بد نصیب دنیا داروں کی طرح دنیا کمانے میں لگ گئے اور اللہ ایسے لوگوں سے بے پروا ہو گیا۔آج یہ سارے مذہبی لوگ عوام کی نگاہوں میں ذلیل ہو چکے ہیں،اور آخرت میں اُن کا بہت بھیانک انجام ہونے والا ہے۔افسوس تو ا س کا ہے کہ ایسے مضامین پڑھ کر بھی ان کا ضمیر نہیں جاگتا۔ اللہ نے اُن کے دلو ں پر مہر لگا دی ہے۔صارمؔ کہتے ہیں
ہوس پیسہ کمانے کی تمہیں باقی ابھی ہے
اگر چہ زندگی انجام پر آئی ہوئی ہے
یہ دولت ساتھ اپنے کیا کبھی لے جا سکو گے
کہو اس عمر میں یہ کیسی ناحق دل لگی ہے