عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَسْلَمَ عَلٰی أَنَّہُ لَا یُصَلِّی إِلَّا صَلَاتَیْنِ فَقَبِلَ مِنْہُ ذَالِکَ۔ (مسند أحمد: 113)
نصر بن علی اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس شرط پر مسلمان ہوا کہ وہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی یہ شرط قبول کر لی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں حکمت و دانائی، دور رسی، عاقبت اندیشی، لوگوں کا بھلا، یہ تمام صفات بدرجہ اتم نظر آتی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ایک شخص مشرف بہ اسلام ہونا چاہتا ہے ، لیکن پانچ نمازوں کے مسئلے پر اڈ گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی نے یہ فیصلہ کیا کہ فی الحال اس کی ضد کو مان لینا چاہے، بعد میں جب اسلام کی حقیقت کا ادراک ہو جائے گا تو تمام ارکان اسلام کا قائل ہو جائے گا ، اس قسم کی دو مثالیں اور ان کی وضاحت درج ذیل ہیں ۔ سیدنا فضالہ لیثی رض کہتے ہیں: رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ امور کی تعلیم دی، ان میں سے ایک امر یہ بھی تھا پانچ نمازوں کی محافظت کیا کر ۔ میں نے کہا: ان گھڑیوں میں تو میں مصروف رہتا ہوں، آپ مجھے کوئی ایسا جامع قسم کا حکم دیں کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں اور مجھے کفایت کرتا رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو نمازوں یعنی طلوعِ آفتاب سے پہلے والی اور غروب آفتاب سے پہلے والی نمازوں کی محافظت کرتا رہ ۔ ابوداؤد۔
کسی آدمی کے دماغ میں یہ نکتہ سرایت نہ مرجائے کہ دو نمازوں پر اکتفاء کرنا بھی درست ہے، علماء حق کے نزدیک اس حدیث کے دو معنی مراد لینا ممکن ہے ۔
1) اس آدمی کو اسکی مصروفیت کی وجہ سے جماعت سے پیچھے رہنے کی رخصت دی گئی تھی، نہ کہ ترک نماز کی۔
2) وہ کوئی نو مسلم آدمی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ فی الحال اس کو رخصت دی جائے ، جب ایمان میں رسوخ پیدا ہوجائے گا تو اس کیلئے پانچ نمازوں کی ادائیگی ممکن ہوجائیگی اور یہی بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے کہ جب کوئی مبلغ کسی بے نمازی کو پانچ نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے ، لیکن وہ اس بات پر مضر ہے کہ وہ صرف دو تین نمازیں پڑھے گا ، تو اس حدیث کی روشنی میں اسے کہا جاسکتا ہے کہ چلو تم دو تین ہی پڑھتے رہو۔( واللہ اعلم باالصواب)
ابوزبیر بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں سیدنا جابر رض سے ثقیف قبیلہ کی بیعت کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اس قبیلے نے ( بیعت کرتے وقت) رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ شرط عائد کی تھی کہ ان پر صدقہ ہوگا نہ جہاد۔ تو رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب یہ لوگ پکے مسلمان ہو جائیں گے تو صدقہ بھی دینگے اور جہاد بھی کرینگے۔ مسند احمد
یہ حدیث اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کسی بڑی مصلحت کی خاطر کسی کو عارضی طور پر اسلام کے بعض احکام سے مستشنی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثقیف قبیلے والے لوگوں کی شرطیں تسلیم نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ کفر پر اڑے رہتے ، جو کہ بہت بڑی مفسدت تھی ۔
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ ۔ ( نحل : 125)
اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔ ( اسلام 360)