نماز ظہر کا وقت تھا میرا ایک گراہک انتظار کر رہا تھا ۔ مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اس نے باہر بازار میں ہی میرا انتظار کرنا مناسب سمجھا ۔ جب میں نے نماز کے بعد دکان کھولا تو اس گراہک کو میں نے سامان کے ساتھ ایک اسلامی کتاب ” قرآن کا پیغام” از خرم مراد بھی دی ، میں اپنے ہر گراہک کو دعوتی لٹریچر ان کے سامان کے ساتھ ہی اس نیت سے رکھتا ہوں کہ صدقہ جاریہ رہے۔ جب میں نے مذکورہ گراہک کو بھی ایک کتاب دی تو اس نے کہا کہ صرف حنفیہ مسلک کی ہی کتاب ہونی چاہے کسی دوسرے مسلک کی نہیں ، ہم عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ہمیں ایسی ویسی کتابیں نہیں چاہے ۔ بہرحال میں نے اسے سمجھا اس کتاب میں قرآن کا پیغام ہی تو ہے اور کتاب سامان کے ساتھ اس کے بیگ میں رکھ لی۔
اسکے بعد جب وہ گراہک چلا گیا تو میں سوچنے لگا بھلا خود کو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے لوگ تارک صلوٰۃ کیسے ہوسکتے ہے جبکہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ
مسند احمد۔ 1028
اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کے اندر رکھی گئی ہے۔
قرآن میں بھی بار بار مومنین کے صفات میں نماز کو اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مدثر میں فرماتے ہیں کہ
“ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں رہن ہے
مگر داہنی طرف والے
وہ باغوں میں ہوں گے، پوچھ گچھ کررہے ہوں گے
مجرموں کے حال کے بارے میں
(سوال کریں گے) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی
وہ جواب دیں گے، ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔”
(سورہ مدثر آیت نمبر 38 تا 43)
نماز نہ پڑھنا باعث جہنم بنے گا ۔
نماز کا معاملہ تو اتنا سنگین ہے کہ شریعت نے بھی اس کو معاف نہیں کیا ، بیماری ، جنگ، و دیگر مشکل حالات میں بھی نماز معاف نہیں اگر چہ کچھ رخصتیں ہے مگر معاف نہیں ۔ اس لئے تارک صلوٰۃ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہے اور نمازوں کی پابندی کرنی چاہے وہاں صرف عمل صالح ہی انسان کو جہنم سے بچا سکتا ہے۔