Design a site like this with WordPress.com
Get started

کورونا وائرس اور ہمارا کردار

اعجاز جعفر

نوٹ ۔ یہ مضمون 4 فروری کو لکھا گیا تھا اس وقت کے حالات کے تناظر میں۔

چین اس وقت کرونا وائرس جیسی مہلک وبا سے دوچار ہے اور اس وبا کی زد میں ہزاروں لوگ آچکے ہیں اور بھی کہی لوگ اس وبا میں گرفتار ہوسکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور چینی لوگوں کو اس آفت سے باہر نکالیں ۔ آمیں۔
یہ وبا اگر چہ جان لیوا ہے مگر ہم نے اس کو ہنسی مذاق بنا رکھا ہے ۔
فیس بک پر عجیب و غریب سٹیٹس پڑھنے کو ملے ۔کسی نے لکھا کہ میں نے vpn کو ڈلیٹ کیا کیونکہ یہ چائنا کی اپلیکشن ہے احتیاط لازمی ہے۔
کسی نے اپنے تصویر کسی چینی باشندے کے ساتھ شئیر کی اور لکھا Me with Corona virus وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بہت سارے غیر سنجیدہ سٹیٹس پڑھنے کو ملے۔

اسلام نے ہمیں ہمدردی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل رہنے کی ہدایت کی ، اور کسی کی مصیبت پر ہنسنے سے منع فرمایا
خْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُمَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَعِيذُ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَهْدِ الْبَلَاءِ .
نسائی 5494
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بری تقدیر، شماتت اعداء ( دشمنوں کی مصیبت پر ہنسنے ) ، شقاوت بدبختی کے آنے اور بری بلا سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔

دوسروں کی مصیبت ،پریشانی اورتکلیف پر خوشی کااظہارکرنا توان لوگوں کا شیوہ ہوتاہے جو بیمار ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں،جن کے دل ودماغ سے ہمدردی ،مہربانی اورشفقت جیسی بہت بڑی دولت کوسوں دور ہوتی ہے، ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کو کسی کے حادثہ، مصیبت یاتکلیف سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور اس کے برعکس افرادکے لیے کسی حادثہ یا مصیبت پرخوشی کاتصور بھی نہیں ہوتا،بلکہ خدانخواستہ اگرکوئی شخص کسی حادثہ یامصیبت میں گرفتار ہو جاتاہے تو اس کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آتاہے،اس کی تعزیت کرتاہے اور اس کی مصیبت کو ہلکا کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتاہے ۔جو کہ یہی اصل میں انسانیت ہے اور ایسی ہی زندگی گزارناحقیقی زندگی ہے،کہ ایک دوسرے کی مصیبت کے وقت بھاگنے کی بجائے قریب آنا اور ایسے ہی اوصاف کے حامل افراد انسان ہونے کاحق اداکردیتے ہیں۔

سامان عبرت
اللہ تعالیٰ نے جب سورہ نازعات میں فرعون کی سرکشی اور اسکے انجام کا ذکر کیا پھر فرمایا

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَعِبۡرَةً لِّمَنۡ يَّخۡشٰىؕ  ۞
نازعات آیت نمبر 26
ترجمہ:
درحقیقت اس میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے ۔

جن لوگوں نے دنیا میں سرکشی اختیار کی اور اپنے آپ کو شریعت سے بالا تر سمجھا اور ظلم و جبر کی راہ اختیار کی اور حدود اللّٰہ کو پامال کیا ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل ہونگے اور آخرت میں بھی۔
ہمیں چاہے کہ ہم واقعات اور حادثات سے سبق حاصل کریں اور حدود اللّٰہ کو پامال نہ کریں ۔ حدود اللّٰہ کے اندر ہماری دونوں جہانوں کی بھلائی ہے ۔ حلال و حرام کا پاس لحاظ رکھا جائے۔ جائز اور ناجائز میں جائز راستہ اختیار کیا جائے۔
مگر جب ہم حدود اللہ کو پامال کرتے ہیں تو تو ہم خود شامت کو بلانے کیلئے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: