Design a site like this with WordPress.com
Get started

حضرت ابوبکر صدیق

آج کا خاص مضمون

سیدنا ابوبکر صدیق ایک عظیم انسان
بعد از پیمبر قصہ مختصر

غلام نبی کشافی
آنچار صورہ سرینگر _________________

آج کا یہ خاص مضمون سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے ، جس میں ان کا ایک مختصر تعارف کیا گیا ہے ، اور مجھے امید ہے کہ آپ کو میرا یہ مضمون پسند آئے گا ، اور اس سے آپ کو ان کی سیرت پڑھنے کا شوق اور رغبت پیدا ہوجائے ۔ __________________ شاعر مشرق علامہ اقبال (1877ء - 1938ء) کا ایک مشہور اور مقبول عام شعر ہے ؛ پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق ( 573ء - 634ء) کے مقام و مرتبہ سے کون واقف نہیں ہوگا ؟ پوری تاریخ اسلام میں پیغمبر اعظم و آخر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی شخصیت فقید المثال ہے ، سیدنا ابو بکر صدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے تقریباً دو اڑھائی سال بعد پیدا ہوئے تھے ، اس لئے بچپن سے ہی ان دونوں کے درمیان بہت یارانہ تھا ، اور دونوں ہمیشہ سفر و حضر میں اکثر و بیشتر ساتھ ساتھ رہتے تھے ، جب آپ نے ہجرت کی تو ابو بکر صدیق بھی ساتھ تھے ، اور جب مدینہ منورہ میں اسلامی مملکت کی داغ بیل پڑی تو اس وقت بھی سیدنا ابوبکر صدیق آپ کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح آپ کے ساتھ کھڑے تھے ، اور ہر محاذ پر آپ کے لئے معتمد اور مشیرٍ خاص ثابت ہوئے ۔ آپ دونوں کی اس بے لوث دوستی اور یارانہ کی معلوم انسانی تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی ۔

کسی شاعر نے بہت صحیح کہا ہے ؛دیکھنے ہوں جو عشق کے آداب دیکھنا پڑھ کے سیرت صدیق

جن چند افراد نے آغاز ہی اسلام قبول کیا تھا ، ان میں ایک سیدنا ابوبکر صدیق بھی تھے ، چونکہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دو اڑھائی سال عمر میں کم تھے ، تو انہوں نے تقریباً 38 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ، اس طرح وہ قبل از اسلام بھی آپ کے سچے دوست تھے ، اور پھر قبول اسلام کے بعد وہ آپ کے اور زیادہ خاص دوست بن گئے ۔
سیدنا ابوبکر صدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے ، اور آپ کو بھی ان کے ساتھ خاص لگاؤ تھا ، اور وہ سفر و حضر میں ہمیشہ آپ کے ساتھ اور آپ کے پاس رہتے تھے ۔
تمام امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ آپ کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ نے بے خوف ہوکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بلا تامل تصدیق کی اور معراج کے موقع پر کفار کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھائی اور آپ کے تمام احوال کی تصدیق کی ۔
سیدنا ابوبکر صدیق کے فضائل اور مناقب کے بارے میں اتنا زیادہ مواد موجود ہے کہ ایک کتاب کتاب ” مناقب ابو بکر صدیق ” تیار ہوسکتی ہے ، لیکن یہاں پر صرف نمونہ کے طور پر صرف ایک حدیث کو بیان کیا جاتا ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي، وَقَدِ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا .
(صحيح مسلم : كِتَابٌ فَضَائِلُ الصَّحَابَةِ : بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ : رقم الحديث 2383/ مشكاة المصابيح : باب مناقب أبي بكر : رقم الحديث 6020)
سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں (کسی کو ) دوست بنا لیتا تو میں ابو بکر کو دوست بناتا ، لیکن وہ ( دوست سے بڑھ کر ) میرا بھائی اور ( زندگی بھر ساتھ دینے والا) میرا ساتھی ہے ، لیکن اللہ تعالی نے تمہارے ساتھی ( یعنی مجھ) کو دوست بنایا ہے ۔

سیدنا ابوبکر صدیق اپنی ساری زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ، اور ظاہر ہے کہ امت مسلمہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہی کا نمبر آتا ہے اور منشائے الٰہی کے تحت وہی خلیفہ اول بھی قرار پائے ، کیونکہ آغاز نبوت ہی سے صحابہ کرام سیدنا ابوبکر صدیق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد درجہ دیتے تھے ، آپ کا جانشین مانتے تھے ، اور آپ کے بعد مسجد نبوی امامت کے فرائض انجام دیتے تھے ، اور تمام صحابہ خوشی خوشی سے ان کی اقتداء کرتے تھے ۔
کسی شاعر نے ابو بکر صدیق کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے ؛

جو پيمبرؐ کی نوا وہ تھی نوائے صديقؓ
جو پيمبرؐ کی رضا وہ تھی رضائے صديقؓ

وہ مصدق وہ وفا کيش و فدا کارِ رسولؐ
ايسے دنيا ميں تو بس ايک ہی آئے صديقؓ

سیدنا ابوبکر صدیق صاحبٍ کرامت بھی تھے ، اس سلسلہ میں ان کی ایک خاص کرامت ان کی جہتی بیٹی اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے مروی اس روایت میں آئی ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ : إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ : وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ، مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ، وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَقُلْتُ : يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ، فَمَنِ الْأُخْرَى ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ – أُرَاهَا جَارِيَةً.
(موطأ مالك : كِتَابٌ الْأَقْضِيَةُ : باب مَا لَا يَجُوزُ مِنَ النَّحْلِ 1512/1453 )
سیدہ عائشہ صدیقہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتی ہیں کہ ( ان کے والد) حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو کھجور کے درخت جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی اپنے باغ مں سے جو غابہ میں تھے عطا کئے تھے ، پھر جب حضرت ابوبکر کی وفات ہونے لگی ، تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ، اے بیٹی ! لوگوں میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا میرے بعد مجھے تجھ سے زیادہ پسند ہو اور نہ مجھے اپنے بعد کسی آدمی کا مفلس رہنا تجھ سے زیادہ ناگوار ہو ، میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کئیے تھے ، اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کر لیتی ، تو وہ تیرا مال ہو جاتا ، اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے اور وارث تیرے دو بھائی ہیں اور تیری دو بہنیں ہیں ، لہذا تو اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر لینا ، سیدہ عائشہ نے کہا ، اے میرے باپ ! اللہ کی قسم ، اگر وہ مال بڑے سے بڑا ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی ، لیکن میں میری ایک ہی بہن اسماء ہے ، تو دوسری بہن کون ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا وہ جو حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے ، میں اس کو لڑکی کے طور پر دیکھ رہا ہوں ۔قابل غور بات یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق کے انتقال کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی زوجہ حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ سے لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نام ام کلثوم رکھا گیا ۔

علامہ زرقانی نے لفظ ” أُرَاهَا ” ( میں اس کو دیکھ رہا ہوں) کا ترجمہ ” أظنها ” ( اس کے بارے میں میرا خیال ہے / میرا گمان ہے) اور یہ بھی لکھا ہے ۔

قال بعض فقهائنا و ذالك لرؤيا رآها ابو بكر.
( شرح الزرقاني على موطا الامام مالك : ج 4 ، ص 74)
ہمارے بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ یہ خواب تھا جسے ابو بکر صدیق نے دیکھا تھا ۔ لیکن جب اس روایت میں صاف طور پر لفظ " أُرَاهَا " ( میں اس کو دیکھ رہا ہوں) آیا ہے ، تو پھر اس واضح پیشینگوئی کو تاویلات کے ذریعہ خواب و گمان کے معنی پہنانا محض تکلفات کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ واضح رہے قرآن مجید کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں کس قدر صاحبٍ کرامت لوگ ہوتے تھے ؟ اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہوتا ہے ۔

قَالَ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِىْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ ۔
قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ۖ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِىٌّ اَمِيْنٌ ۔
قَالَ الَّـذِىْ عِنْدَهٝ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٝ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْۖ لِيَبْلُوَنِـىٓ ءَاَشْكُـرُ اَمْ اَكْفُرُ ۖ وَمَنْ شَكَـرَ فَاِنَّمَا يَشْكُـرُ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىْ غَنِىٌّ كَرِيْـمٌ ۔
( النمل: 38 تا 40)

سلیمان نے کہا ، اے اہل دربار ! تم میں کون ہے جو اس ( ملکہ سبا) کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ ( اور اس کے اہل دربار) میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں ۔
جنوں میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا ، قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں ، میں اسے آپ کے پاس لا کر دیتا ہوں ، تو ، اور میں اس کی طاقت رکھتا ہوں ، امانت دار بھی ہوں۔
ایک ( اور) شخص ، جس کے پاس کتاب کا علم تھا ، نے کہا ، میں اسے آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لا کر دیتا ہوں ، پھر جب سلیمان نے اس ( تخت) کو اپنے روبرو رکھا ہوا دیکھا ، تو کہنے لگا یہ میرے رب کا فضل ہے ، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا‌ ہوں ، اور جو شخص شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر کرتا ہے ، اور جو ناشکری کرے ، تو میرا رب بے نیاز ، بزرگی والا ہے ۔ جس شخص کے پاس علمٍ کتاب ( عِنْدَهٝ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ) تھا ، وہ کوئی نبی نہیں تھا ، بلکہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابہ میں شامل ایک فرد تھا ، تو جب اللہ تعالی نے اس شخص کو اپنے پاس سے غیبی علم سے نوازا تھا ، اور اس کو اتنی بڑی کرامت کی طاقت عطا فرمائی تھی ، جس کا کوئی بھی سچا مومن و مسلمان انکار نہیں کر سکتا ہے ، تو پھر کیا وجہ ہے اور یہ کہاں کا انسان ہے کہ کہ ہمارے بعض اہل دانش سیدنا ابو بکر صدیق کی اس ایک کرامت کو بھی بیجا تاویلات کے ذریعہ مسترد کر دیتے ہیں ؟ جبکہ قرآن میں شخصٍ مذکور کی اس سے بھی بڑی کرامت کو بغیر کسی تاویل و توجیہ کے قبول کی جاتی ہے ، لیکن صحیح حدیث میں منقول سیدنا ابوبکر صدیق کی کرامت کو خواب و گمان قرار دیکر اس کی اہمیت کو کم کر دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہمارا یہ ایمان ہونا چاہئے تھا کہ جس طرح پیغمبر اعظم و آخر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے افضل ہیں ، اسی طرح آپ کے صحابہ بھی دوسری امتوں کے صحابہ کے مقابلے میں افضل ہیں ، اور ان میں افضل ترین صحابی سیدنا ابوبکر صدیق ہیں ، اور یہ کوئی خیالی یا جذبات پر مبنی اعتقادی بات نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام کی تعریف و توصیف نہ صرف قرآن میں بیان کی ہے بلکہ اس سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی ان کی تعریف و توصیف بیان کی تھی ، جس کا ذکر قرآن کی اس غیر معمولی آیت میں آیا ہے ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰه وَ الَّذِیۡنَ مَعَه اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَهمۡ تَرٰىهمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰه وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاهمۡ فِیۡ وُجُوۡهمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُهمۡ فِی التَّوۡرٰىة وَ مَثَلُهمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ، کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَه فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِه یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِهمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰه الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔
( الفتح :29)اس آیت کی جامع ترین ترجمانی مولانا ابوالکلام آزاد نے اس طرح فرمائے ہے ۔

” محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو دشمنان حق کے مقابلے میں نہایت سخت مگر آپس میں نہایت رحم دل ہیں ، انہیں تم ہمیشہ اللہ کے آگے عالمٍ رکوع و سجود میں پاؤ گے کہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کے طالب ہیں ، ان کی پیشانیوں پر کثرت سجود کی وجہ سے نشان بن گئے ہیں ، یہی وہ جماعت ہے جسے تورات و انجیل میں ایک کھیتی سے تمثیل دی ہے کہ اس نے پہلے زمین سے ایک کونپل نکالی ، پھر اس نے غذائے نباتی کو ہوا اور مٹی سے جذب کرکے اس کونپل کو قوی کیا ، پس وہ بتدریج بڑھتی اور موٹی ہوتی گئی ، یہاں تک کہ وہ کھیتی اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور اپنی سر سبزی اور شادابی سے کسانوں کو خوشی بخشنے لگی ، خدا تعالی نے یہ ترقی انہیں اس لئے عطا کی کہ کفار اسے دیکھ کر غصے میں جلیں ، اللہ تعالی ان لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کئے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے “
(ترجمان القرآن : ج1 ، ص 379 /پاکستانی ایڈیشن) حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے اخلاقی نظام کے عملی پیکرٍ اخلاق تھے ، اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور آپ کے اسوہ حسنہ کا عملی پیکر تھے ۔ سچ کہا ہے ، جس نے بھی کہا ہے ؛

سیرتٍ صدیق پڑھ کر دوستو ایسا لگا
جیسے میں نے پڑھ لیا ہو ترجمہ قرآن کا _____________________ _________________

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: